الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نماز کے متفرق مسائل
16. بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا
حدیث نمبر: 206
398- مالك عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن عمرو بن سليم الزرقي عن أبى قتادة الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو حامل أمامة بنت زينب ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهى لأبي العاص بن الربيع بن عبد شمس فإذا سجد وضعها وإذا قام حملها قال مالك وذلك فى النوافل.
سیدنا ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے، یہ ابوالعاص بن الربیع بن عبد شمس کی بیٹی تھیں، پھر جب سجدہ کرتے تو اسے (زمین پر) بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔ امام مالک نے کہا: یہ عمل نوافل میں تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 206]
تخریج الحدیث: «398- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1 ح 411، ك 9 ب 24 ح 81) التمهيد 93/20، الاستذكار: 381، و أخرجه البخاري (516) ومسلم (543) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

   صحيح البخارييصلي وهو حامل أمامة بنت زينب بنت رسول الله ولأبي العاص بن ربيعة بن عبد شمس فإذا سجد وضعها وإذا قام حملها
   صحيح البخاريخرج علينا النبي وأمامة بنت أبي العاص على عاتقه فصلى فإذا ركع وضع وإذا رفع رفعها
   صحيح مسلميصلي للناس و أمامة بنت أبي العاص على عنقه فإذا سجد وضعها
   صحيح مسلميؤم الناس و أمامة بنت أبي العاص وهي ابنة زينب بنت النبي على عاتقه فإذا ركع وضعها وإذا رفع من السجود أعادها
   صحيح مسلميصلي وهو حامل أمامة بنت زينب بنت رسول الله ول أبي العاص بن الربيع فإذا قام حملها وإذا سجد وضعها
   سنن أبي داوديصلي وهو حامل أمامة بنت زينب بنت رسول الله فإذا سجد وضعها وإذا قام حملها
   سنن أبي داودصلى رسول الله وهي على عاتقه يضعها إذا ركع ويعيدها إذا قام حتى قضى صلاته يفعل ذلك بها
   سنن أبي داوديصلي للناس وأمامة بنت أبي العاص على عنقه فإذا سجد وضعها
   سنن أبي داودقام رسول الله في مصلاه وقمنا خلفه وهي في مكانها الذي هي فيه قال فكبر فكبرنا قال حتى إذا أراد رسول الله أن يركع أخذها فوضعها ثم ركع وسجد حتى إذا فرغ من سجوده ثم قام أخذها فردها في مكانها فما زال رسول الله صلى الله عليه
   سنن النسائى الصغرىيؤم الناس وهو حامل أمامة بنت أبي العاص على عاتقه فإذا ركع وضعها فإذا فرغ من سجوده أعادها
   سنن النسائى الصغرىصلى رسول الله وهي على عاتقه يضعها إذا ركع ويعيدها إذا قام حتى قضى صلاته يفعل ذلك بها
   سنن النسائى الصغرىيصلي وهو حامل أمامة فإذا سجد وضعها وإذا قام رفعها
   سنن النسائى الصغرىحامل أمامة بنت أبي العاص على عاتقه فإذا ركع وضعها وإذا رفع من سجوده أعادها
   بلوغ المرامان رسول الله يصلي وهو حامل امامة بنت زينب فإذا سجد وضعها،‏‏‏‏ وإذا قام حملها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسميصلي وهو حامل امامة بنت زينب ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم
   المعجم الصغير للطبراني يصلي وهو حامل أمامة بنت أبى العاص بن الربيع وهى بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإذا ركع وضعها ، وإذا قام حملها حتى فرغ من صلاته
   مسندالحميديرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤم الناس وأمامة بنت العاص وهي ابنة زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم على عاتقه فإذا ركع وضعها فإذا فرغ من السجود أعادها

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 206 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 206  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 516، ومسلم 543، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ صحیح مسلم میں اسی حدیث میں آیا ہے کہ (سیدنا) ابوقتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يؤم الناس وأمامة بنت أبى العاص وهى بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عليٰ عاتقه فإذا ركع وضعها وإذا رفع من السجود أعادها۔» میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور امامہ بنت ابی العاص جو کہ آپ کی بیٹی زینب کی بیٹی تھیں کو اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے تھے پھر جب آپ رکوع کرتے تو اسے (نیچے) رکھ دیتے اور جب سجدوں سے اٹھتے تو اسے دوبارہ اُٹھا لیتے تھے۔ [صحيح مسلم: 42/ 543، دارالسلام: 1213] معلوم ہوا کہ یہ نفل نماز نہیں بلکہ فرض نماز تھی۔
➋ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو عمل کثیر سے بھی نماز فاسد نہیں ہوتی۔
➌ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ ہے کہ اگر بچے کی حفاظت والا کوئی آدمی موجود ہو تو بچہ اٹھا کر نماز تو ہوجائے گی لیکن مکروہ ہے۔ دیکھئے فتاویٰ عالمگیری [عربي نسخه ج1 ص107] اور (حنفیوں کے نزدیک) کتا اٹھا کر نماز جائز ہے بشرطیکہ کتے کا منہ بندھا ہوا ہو۔ دیکھئے فتاویٰ شامی [عربي نسخه ج1 ص153] !
محمد شریف تقلیدی نے درمختار پر اعتراضات کے جواب میں کتا اٹھا کر نماز پڑھنے کے جائز ہونے پر ایک حدیث سے جو استدلال کیا ہے، اسے نقل کرنے سے قلم کانپ رہا ہے۔ دیکھئے ص21، اور مشتاق علی شاہ دیوبندی کی کتاب فقہ حنفی پر اعتراضات کے جواب ص309
عرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول۔‏‏‏‏
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 398   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 178  
´نمازی فرض ہو یا نفل، بچے کو اٹھا سکتا ہے`
«. . . وعن ابي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي وهو حامل امامة بنت زينب فإذا سجد وضعها،‏‏‏‏ وإذا قام حملها . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے ہوئے (اپنی نواسی) امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو گود میں لیے رہتے، جب سجدہ میں جاتے تو اسے گود سے نیچے اتار دیتے اور سجدہ کر کے کھڑے ہوتے تو اسے (دوبارہ) گود میں اٹھا لیت . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 178]
لغوی تشریح:
«حَامِلٌ» مرفوع اور تنوین کے ساتھ ہے۔
«أُمَامَةَ» «حَامِلٌ» کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
«وَهُوَ يَؤُمُّ النَّاسَ» «أُمُّ يَؤُمُّ»، باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» سے ہے، لوگوں کی امامت کرتے۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ وہ فرض نماز تھی۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں، خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل، نمازی بچے وغیرہ کو اٹھا سکتا ہے، خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو اور نمازی امام ہو یا منفرد۔ اور یہ ایسا عمل کثیر نہیں کہ اس سے نماز باطل ہو جائے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ سے کسی نے دریافت کیا کہ نماز میں اگر سر سے پگڑی (یا ٹوپی وغیرہ) گر جائے تو اسے اٹھا کر آدمی سر پر رکھ سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال کی بچی امامہ بنت زینب کو اٹھا لیا تھا، تو پگڑی یا ٹوپی وغیرہ گرنے کی صورت میں اٹھا لینے میں آخر کیا مضائقہ ہے؟ یعنی اٹھانا جائز ہے۔ اتنا عمل، عمل کثیر نہیں۔ اور اس حدیث سے پتہ چلا کہ بچوں کے کپڑے اور بدن پاک ہوتے ہیں کیونکہ یہی اصل ہے بشرطیکہ ان میں نجاست ظاہر نہ ہو۔ [سبل السلام]

وضاحت:
(سیدہ امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما) امامہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے والد کا نام ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان سے نکا ح کر لیا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مغیرہ بن نوفل رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور انھی کے ہاں انہوں نے وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 178   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 920  
´نماز میں کون سا کام جائز اور درست ہے؟`
صحابی رسول ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ ظہر یا عصر میں نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلا چکے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور اس حال میں کہ (آپ کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہما جو آپ کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں آپ کی گردن پر سوار تھیں تو آپ اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور ہم لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور وہ اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی رہیں، جیسے بیٹھی تھیں، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا تو ہم لوگوں نے بھی «الله أكبر» کہا یہاں تک کہ جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں اتار کر نیچے بٹھا دیا، پھر رکوع اور سجدہ کیا، یہاں تک کہ جب آپ سجدے سے فارغ ہوئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو انہیں اٹھا کر (اپنی گردن پر) اسی جگہ بٹھا لیا، جہاں وہ پہلے بیٹھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 920]
920۔ اردو حاشیہ:
➊ اس آخری روایت کی سابقہ احادیث سے تایئد ہوتی ہے۔
➋ حضر ت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بموجب ان کی وصیت کے نکاح کر لیا تھا مگر ان سے اولاد نہیں ہوئی۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں سے بہت ہی پیار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کسی طرح پریشان نہ ہوتے تھے۔
➍ کچھ فقہاء کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص باور کرانے کی کوشش کی ہے مگر حق یہ ہے کہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے، جس کے تحت اس قسم کے اعمال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصو ص کیا جا سکے بلکہ اس میں امت کے لئے اسوہ ہے۔ ماں باپ کو اس قسم کی صورت حال کا اکثر سامنا رہتا ہے اور بعض احوال میں امام یا مقتدی کو بھی ایسی صورت پیش آ سکتی ہے۔
➎ چھوٹے بچوں کے جسم اور کپڑے طہارت پر محمول ہوتے ہیں۔ اور انہیں مسجد میں لے آنا جائز ہے۔ (مگر ایک حد تک)۔
➏ نماز میں عمل قلیل ہو یا کثیر مباح ہے۔ بشرطیکہ قبلے سے انحراف نہ ہو، جیسے کہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی کو نیچے اتارا پھر اٹھایا اور بار بار ایسے کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 920   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 712  
´بچوں کو مسجد میں لے جانے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت ابی العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کو (گود میں) اٹھائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، (ان کی ماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا ہیں) امامہ ایک (کمسن) بچی تھیں، آپ انہیں اٹھائے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے نماز پڑھائی، جب رکوع میں جاتے تو انہیں اتار دیتے، اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں پھر گود میں اٹھا لیتے، ۱؎ یہاں تک کہ اسی طرح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کی۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 712]
712 ۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ممکن ہے گھر میں کوئی بچی اٹھانے والا نہ ہو یا بچی ضد کرتی ہو یا آپ نے امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ایسے کیا ہو کیونکہ کسی کو مجبوری پیش آسکتی ہے۔ بہرصورت وجہ جو بھی ہو، اس حدیث سے اس کا جواز ہی ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ آپ نے یہ عمل بیان جواز کے لیے کیا ہے تاکہ اس قسم کے موقع پر امت کا کوئی فرد تنگی یا حرج میں مبتلا نہ ہو کیونکہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی۔ رہا یہ کہ عمل قلیل جائز ہے اور کثیر ناجائز، تو اس موقف کی بھی احادیث سے تائید نہیں ہوتی جس طرح کہ یہاں ہے۔ ہاں! ضرورت کے پیش نظر یا اصلاح نماز کے لیے عمل کثیر میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ مالکیہ فرض نماز میں اس کے قائل نہیں، حالانکہ مجبوری تو فرض نماز میں بھی پیش آسکتی ہے، نیز یہ فرض نماز ہی تھی بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔ بہرصورت بلاوجہ ایسے نہیں کرنا چاہیے، مجبوری ہو تو کم سے کم فالتو حرکت کے ساتھ ایسے کیا جا سکتا ہے۔
➋ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں بچوں کو لایا جا سکتا ہے، ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے، بلکہ حسب ضرورت دوران نماز میں اٹھایا بھی جا سکتا ہے۔ اور وہ حدیث جس میں بچوں کو مساجد میں لے جانے سے منع کیا گیا ہے، ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، حدیث: 750، وضعیف الترغیب و الترھیب للألباني، حدیث: 186]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 712   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 828  
´نماز میں امام کے لیے کتنا عمل جائز ہے؟`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا، آپ (اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار دیتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اسے دوبارہ اٹھا لیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 828]
828 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 712۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 828   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1205  
´نماز میں بچوں کو گود میں اٹھانے اور انہیں گود سے اتارنے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، اور نماز کی حالت میں (اپنی نواسی) امامہ رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ سجدہ میں گئے تو انہیں اتار دیا، اور جب کھڑے ہوئے تو انہیں اٹھا لیا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1205]
1205۔ اردو حاشیہ: یہ امامہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد ابوالعاص رضی اللہ عنہ کفر کی وجہ سے مکے میں رہ گئے تھے۔ جنگ بدر میں قیدی ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس شرط پر چھوڑ دیا کہ زینب کو بھیج دیں۔ انہوں نے جاتے ہی وعدے کے مطابق زینب رضی اللہ عنہا کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچا دیا۔ باپ دور ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امامہ سے خصوصی شفقت فرماتے تھے، اسی لیے کبھی کبھار وہ آپ کی گود میں مسجد میں آجایا کرتی تھیں۔ یہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آگئے تو آپ نے سابقہ نکاح قائم ہونے کی وجہ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کی زوجیت میں رکھا۔ آپ نے بعض اوقات اس داماد (ابوالعاص) کو برسر منبر تعریف بھی فرمائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاه۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد حدیث: 712)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1205   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1206  
´نماز میں بچوں کو گود میں اٹھانے اور انہیں گود سے اتارنے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ لوگوں کی امامت کر رہے ہیں، اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہم کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جب آپ رکوع میں گئے تو انہیں اتار دیا، اور جب سجدے سے فارغ ہوئے تو انہیں پھر اٹھا لیا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1206]
1206۔ اردو حاشیہ: بعض علماء کا خیال ہے کہ بچے کو اٹھا کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے کہ بچے کے جسم کی پاکیزگی کا یقین نہیں ہوتا۔ وہ حضرات اس اصول سے غافل ہو گئے کہ جب تک ظاہری نجاست نہ ہو تو بچے یا کسی بھی چیز کو پاک ہی تصور کیا جائے گا، نیز یہ ضرورت کی حالت میں ہے۔ ضرورت کی حالت میں ایسے امکانات مدنظر نہیں رکھے جاتے ورنہ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ بعض افاضل نے (شاید مذاقاً) کہا ہے کہ بچی کو اٹھانے کی صورت میں رفع الیدین کہا گیا؟ ہم کہتے ہیں، جہاں پہلا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ رکوع سے پہلے بچی کو اتار دیا کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:426  
426- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا۔ سدیہ امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی ہیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا، جب صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھڑا کردیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ اٹھا لیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:426]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچوں کے ساتھ ہر حال میں شفقت سے پیش آنا چاہیے، خواہ وہ نماز میں ہی تنگ کیوں نہ کریں، وہاں بھی انھیں ڈانٹنا نہیں چاہیے۔ دوران نماز اگر چھوٹا بچہ اپنے باپ وغیرہ کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور وہ نمازی کے آگے سے گزر جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ استنباط اس حدیث سے لیا گیا ہے کہ اگر ایک شخص نماز میں بچے کو اپنے کندھے پر سوار کرتا ہے، پھر جب وہ اس کو نیچے رکھتا ہے، تو وہ گھٹنوں کے بل یا چل کر آگے سے بھی گزرسکتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 426   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1214  
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ﷺ لوگوں کو امامت کرا رہے ہیں اور ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی امامہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ ﷺ کی گردن پر ہے، جب آپﷺ سجدہ کرتے تو اس کو بٹھا دیتے (گردن سے اتار دیتے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1214]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
بچوں کے کپڑے اور بدن کو پاک سمجھا جائے گا جب تک ان کی نجاست کا یقین نہ ہو یا ان پر نجاست نہ لگی ہو۔
(2)
ضرورت کے تحت بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنا (فرض ہویا نفل)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے لیکن مالکیہ نے بلا دلیل اس کو نفل نماز سے خاص قرار دیا ہے۔
(3)
نماز میں بچے کو گود میں لینا اور پھر رکوع اور سجدہ کے وقت اتار دینا اور پھر دوسری رکعت کے شروع میں دوبارہ اٹھا لینا یہ عمل کثیر نہیں ہے عمل قلیل ہے اس لیے اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1214   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5996  
5996. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو سیدہ امامہ بنت العاص رضی اللہ عنہا آپ کے شانے مبارک پر تھیں پھر آپ نے نماز ادا فرمائی جب رکوع کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5996]
حدیث حاشیہ:
اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شفقت کا بیان ہے جو آپ نے ایک معصوم بچی پر فرمائی یہ آپ کے خصائص میں سے ہے۔
(صلی اللہ علی وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5996   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:516  
516. حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہ‬ ؓ ک‬و اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو آپ کی لخت جگر حضرت زینب‬ ؓ ا‬ور حضرت ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمسس کی بیٹی تھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:516]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال شارح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس باب میں امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب بچی کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے پر کیا اشکال ہو سکتا ہے؟ کیونکہ محض گزرنا کندھے پر اٹھانے سے کہیں معمولی بات ہے۔
(شرح ابن بطال: 144/2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بھی اسی استنباط کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں چھوٹی بچی کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عورت کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
(فتح الباري: 763/1)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں بچے کو اٹھانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، نیز اس قدر تھوڑا عمل نماز کے منافی نہیں۔
یہ عمل بوقت ضرورت جائز تو ہے مگر دور حاضر میں علماء حضرات کو اس سے احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ جو چیزیں عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتراض ہوں انھیں عام طور پر بلاوجہ اختیار کر لینے سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ احکام ومسائل میں وسعت کے پیش نظر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھارکسی خاص موقع پر اگر کسی نے اپنے کسی پیارے بچے کو دوران نماز میں کندھے پر بٹھا لیا تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن احتیاط کا دامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 516   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5996  
5996. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو سیدہ امامہ بنت العاص رضی اللہ عنہا آپ کے شانے مبارک پر تھیں پھر آپ نے نماز ادا فرمائی جب رکوع کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5996]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔
حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شفقت پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران نماز میں ایک معصوم بچی کو اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں، رکوع کے وقت اسے اتار دیتے ہیں، جب کھڑے ہوتے ہیں تو پھر اسے اٹھا لیتے ہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی۔
جب آپ رکوع کے وقت اسے اتارتے تو زیادہ دیر صبر نہ کسکتی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام کے وقت فوراً اسے اٹھا لیتے۔
اس سے بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت کا پتا چلتا ہے کہ ایک طرف خشوع وخضوع میں مبالغہ اور دوسری طرف بچی کی دل جوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچی کی دل جوئی کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے بیان جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔
(فتح الباري: 527/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5996