تخریج: «أخرجه البخاري، الكسوف، باب صلاة الكسوف جماعة، حديث:1052، ومسلم، الكسوف باب ما عرض علي النبي صلي الله عليه وسلم في صلاة الكسوف من أمرالجنة والنار، حديث:907، وحديث علي أخرجه أحمد:1 /143، وابن خزيمة، حديث:1388، 1394 وهو حديث حسن، وحديث جابرأخرجه مسلم، الكسوف، حديث:904، وحديث أبي بن كعب أخرجه أبوداود، صلاة الإستسقاء، حديث:1182 وسنده ضعيف.»
تشریح:
1. تعداد رکوع میں روایات مختلف ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
2.روایات میں دو دو رکوع‘ تین تین رکوع‘ چار چار رکوع یاپانچ پانچ رکوع ایک رکعت میں پڑھنے کا ذکر ہے۔
3. بعض نے ان کے درمیان جمع اور تطبیق دیتے ہوئے اس پر محمول کیا ہے کہ کسوف کی نماز آپ کی زندگی میں متعدد بار ہوئی ہے۔
اور بعض کا قول ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور کسوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے‘ لہٰذا ان روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا لازمی ہے تاکہ تعارض دور ہو‘ چنانچہ یقینی اور قطعی طور پر وہی احادیث راجح ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر آیا ہے۔
موقع کی مناسبت سے ہم اس جگہ چند امور کا بالاختصار اظہار ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صحیح صورت حال واضح ہو جائے اور اس مسئلے کی تنقیح و تحقیق ہو جائے۔
4. یہ بات ذہن نشین رہے کہ محقق مؤرخین‘ پیچیدہ و باریک مسائل کی تحقیق کرنے والے ہیئت دان اور ماہرین فلکیات کا اس پر اتفاق ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ جس روز فوت ہوئے وہ ۱۰ہجری ماہ شوال کی ۲۸ یا ۲۹ تاریخ تھی جبکہ انگریزی لحاظ سے ۶۳۲ء جنوری کی ۲۷ تاریخ بنتی ہے۔
اور بعض نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔
اور اس پر بھی سب متفق نظر آتے ہیں کہ سورج گرہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے بعد پھر کبھی نہیں ہوا‘ البتہ اس سے پہلے وقوع ہوا یا نہیں ‘ اس کے متعلق محقق کبیر علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب سیرت رحمۃ للعالمین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی و مدنی دور میں وقوع پذیر ہونے والے سورج گرہن کی تعداد ذکر کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد دس بار سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا۔
اس میں وہ سورج گرہن بھی شامل ہے جو آپ کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر لگا تھا۔
یہ گرہن ان سب کے آخر میں واقع ہوا۔
لیکن قاضی صاحب نے نہ تو ان کے اوقات کا ذکر فرمایا ہے اور نہ ان جگہوں اور علاقوں کو بیان کیا جہاں یہ واقعات ہوئے ہیں تاکہ مدینہ منورہ میں جو سورج گرہن ملاحظہ کیا گیا اس سورج گرہن سے ممیز ہو جاتا جو وہاں ملاحظہ نہیں کیا گیا۔
رہا احادیث کا معاملہ تو امام مسلم رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے‘ انھوں نے بتایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ منورہ میں اپنے تیروں سے تیز اندازی کر رہا تھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔
میں نے تیروں کو پھینک مارا اور دل میں کہا کہ سورج گرہن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معاملہ پیش آیا ہے‘ اللہ کی قسم! اسے میں ضرور دیکھوں گا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف: الصلاۃ جامعۃ‘ حدیث: ۹۱۳) 5. یہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مدینے میں پہلا موقع تھا کہ سورج کو گرہن لگا۔
کم از کم اس وقت تک گرہن کے بارے میں کوئی حکم ثابت نہیں۔
اور یہ تو معلوم ہے کہ عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ہیں۔
یہ بات اس کا تعین تو کر دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پہلی مرتبہ جو سورج گرہن مشاہدہ کیا گیا وہ فتح مکہ کے بعد کا ہے‘ پہلے کا نہیں۔
صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ گرہن کا واقعہ شدید گرمی کے دن ہوا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ماعرض علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم …‘ حدیث: ۹۰۴) اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ گرہن جو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا وہ جنوری کے مہینے میں لگا تھا۔
اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں سردی شدید ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں اور ایک واقعہ نہیں بلکہ متعدد ہیں۔
اس کے بعد جب ہم فلکیات کے حساب پر نظر ڈالتے ہیں جسے علامہ قاضی محمد سلیمان نے نمایاں کیا ہے تو فتح مکہ کے بعد ہمیں تین مرتبہ گرہن کا ثبوت ملتا ہے۔
پہلا گرہن ۲۸ ربیع الثانی ۹ ہجری بمطابق ۱۳ اگست ۶۳۰ء کو ہوا۔
اور اگست کا مہینہ جیسا کہ سب جانتے ہیں سخت گرمی کا مہینہ ہے۔
اور بارش کی کمی کی وجہ سے جزیرۃ العرب میں دوسرے ملکوں اور علاقوں کے مقابلے میں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
اور دوسرا گرہن ۲۹ شوال ۹ ہجری بمطابق ۷ فروری ۶۳۱ء میں واقع ہوا۔
اور تیسرا گرہن ۲۸ شوال ۱۰ ہجری بمطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو لگا۔
اور جب ہم فلکیات کے حساب اور احادیث میں مذکور کسوف کو باہم ملاتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعات میں سے دو گرہن ہوئے ہیں۔
ایک گرہن تو اگست کے مہینے میں واقع ہوا‘ یعنی پہلا گرہن شدید گرمی میں لگا۔
اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر جو جنوری کے مہینے میں ہوا وہ تیسرا سورج گرہن تھا۔
اور جو ۹ ہجری شوال کے مہینے میں
(فروری میں) واقع ہوا وہ دوسرا گرہن تھا۔
مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مدینہ میں اس گرہن کا دیکھنا ممکن بھی تھا یا نہیں؟ بہرحال جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ متعدد مرتبہ گرہن کے ہونے کا مقتضی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دو دفعہ سورج گرہن واقع ہوا۔
لیکن یہ تعدد ‘روایات کے اختلاف اور رکوعات کی تعداد کی تحقیق اور تلاش میں سود مند نہیں ہے کیونکہ دونوں واقعات سے متعلقہ روایات ہر رکعت میں دو رکوعوں کی صراحت کرتی ہیں‘ پھر باقی کون سے سورج گرہن رہ جاتے ہیں جن کی نماز میں تین تین‘ چار چار اور پانچ پانچ رکوع کیے؟ 5. ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے روز گرہن کی نماز کے بارے میں بھی روایات میں صریح تعارض ہے۔
اکثر روایات میں ہے کہ اس روز نماز کسوف ہر رکعت میں دو رکوع سے پڑھی گئی ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت سے نماز میں ہر رکعت تین رکوعوں سے پڑھنا ثابت ہے‘ پس احادیث کا باہمی تعارض بجز ترجیح کے دور کرنا ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا ہمارے نزدیک‘ خواہ ہم متعدد واقعات تسلیم کریں یا نہ کریں‘ وہ روایات قوی ترین ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر ہے۔
سب سے زیادہ ان کا ثبوت ہے اور قطعی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی وجہ سے راجح بھی ہیں۔
امام شافعی ‘ امام بخاری ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اور متأخرین میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے کہ دو رکوع کی احادیث راجح ہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کسوف کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا مگر صاحب ہدایہ نے اس کا انکار کیا ہے کہ نماز کسوف میں خطبہ نہیں کیونکہ کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں صاف طور پر اس کا ذکر موجود ہے کہ آپ نے سامعین کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا۔