ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ موذی جانور ہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جا سکتے ہیں: چوہیا، بچھو، کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 837]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 601
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جانوروں میں سے پانچ سب کے سب شریر ہیں۔ حل اور حرم (سب جگہوں پر) مار دیئے جائیں اور وہ ہیں بچھو، چیل، کوا، چوہا اور کاٹ کھانے والا کتا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 601]
601 لغوی تشریح: «الدّوَابّ»”با“ پر تشدید ہے۔ یہ «دابة» کی جمع ہے۔ ہر اس جانور کو کہتے ہیں جو زمین پر رینگتا ہے، یعنی چلتا ہے، پھر عموماً اس کا استعمال چار ٹانگوں والے جانور پر ہونے لگا۔ «فَوَاسِق» «فاسقة» کی جمع ہے اور ان کا فسق اور شر ان کی خباثت، کثرت نقصان اور موذی ہونے کی بنا پر ہے۔ «الحِدَأة»”حا“ کے کسرہ کے ساتھ۔ «عِنبَة» کے وزن پر ہے۔ جسے چیل کہتے ہیں۔ اتنا خبیث پرندہ ہے کہ انسان کے ہاتھ سے گوشت چھین کر لے جاتا ہے۔ «العَقْرَب» بچھو۔ اس کے مفہوم میں سانپ بالاولٰی شامل ہے۔ «وَالْكَلْبُ الْعَقُور» «العقور»”عین“ پر زبر کے ساتھ ہے، «عقر» سے مشتق ہے جس کے معنی قتل کرنا اور زخمی کرنا ہیں۔ اور اس سے ہر چیرنے پھاڑنے والا درندہ مراد ہے، جیسے شیر، چیتا، تیندوا، ریچھ اور بھیڑیا وغیرہ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 601
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2832
´سانپ مارنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں محرم مار سکتا ہے: سانپ، چوہیا، چیل، کوا اور کاٹ کھانے والا کتا۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2832]
اردو حاشہ: سانپ کا موذی ہونا واضح ہے۔ اوپر والی روایت میں سانپ کے بجائے بچھو کا ذکر ہے۔ دونوں حشرات الارض سے ہیں اور زہریلے ہیں، اس لیے دونوں کو ایک نوع میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایک کا ذکر دوسرے کے ذکر سے مستغنی کرتا ہے۔ دوسرے کاٹنے والے حشرات بھی اس حکم میں داخل ہو سکتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2832
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2884
´ان جانوروں کا ذکر جن کا قتل حرم میں جائز ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ موذی جانور ہیں جو حرم اور حرم سے باہر مارے جا سکتے ہیں: کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا، بچھو، اور چوہیا۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2884]
اردو حاشہ: یہ مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہاں محرم کا ذکر تھا اور یہاں حرم کا ذکر ہے۔ گویا ان جانوروں کو محرم قتل کر سکتا ہے حل ہو یا حرم۔ اور حرم میں بھی انھیں قتل کیا جا سکتا ہے، خواہ قتل کرنے والا محرم ہو یا حلال۔ ان کے قتل کی وجوہات یچھے بیان ہو چکی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2831 تا 2838) ان کے قتل کے جواز کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو کوئی جزا یا فدیہ یا جرمانہ نہیں دینا پڑے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2884
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3249
´کوے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سانپ فاسق ہے، بچھو فاسق ہے، چوہا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے۔“ قاسم سے پوچھا گیا: کیا کوا کھایا جاتا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فاسق کہنے کے بعد اسے کون کھائے گا؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3249]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: فاسق گناہ گار۔ بدکار اور بدمعاش کوکہتے ہیں۔ ان جانوروں کو فاسق اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3249
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2862
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ فاسق جانور، انہیں حِل اور حرم میں قتل کر دیا جائے، سانپ، چتکبرا کوا، چوہا، کاٹنے والا کتا یا درندہ اور چیل۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2862]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فَوَاسِق: فاسق کی جمع ہے، فسق کا معنی ہے، نکلنا، خارج ہونا اور ان جانوروں کو فاسق کہنے کی وجہ یہ ہے، یہ باقی حیوانات کے حکم تحریم قتل میں ان سے خارج ہیں یا حلال ہونے کے حکم سے خارج ہیں یا یہ ایذاء پہنچانے اور فساد وبگاڑ پھیلانے میں اور عدم انتفاع میں دوسروں سے خارج ہیں۔ (2) اَلكَلْبُ الْعُقُوْر: عقور کا معنی ہے چیرنے پھاڑنے والا، زخمی کرنے والا، اس لیے جمہور علماء کے نزدیک اس سے مراد تمام درندے ہیں، چیتا، بھیڑیا اور شیر وغیرہ سب اس میں داخل ہیں اور حنفیوں کے نزدیک اس سے مراد کاٹنے والا کتا ہے۔ (3) اَلْغُرَابُ الْاَبْقَع: اَبْقَع: جس کا پیٹ اور پشت سفید ہو۔ فوائد ومسائل: 1۔ خمس کی قید حصر کے لیے نہیں ہے اس لیے بعض روایات میں چار ہیں بعض میں پانچ اور بعض میں چھ ہیں۔ یعنی عقرب، بچھو کا تذکرہ اور بعض میں اَلسَّبْعُ الْعَادِیْ حملہ کرنے والا درندہ آیا ہے۔ 2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان جانوروں کے قتل کے حلال ہونے کی علت ان کی ایذارسانی اورفساد ہے اس لیے وہ جانور جو موذی ہے اس کا قتل جائز ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک علت عدم اکل ہے، اس کا کھانے کے قابل نہ ہونا اس لیے شوافع کے نزدیک حیوانات کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ جن کا قتل مستحب ہى یہ وہ جانور ہیں جو موذی ہیں۔ 2۔ جن کا قتل جائز ہے یہ وہ ہیں جن میں نفع اور ضرردونوں ہیں یا نفع ونقصان کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔ 3۔ جن کا کھانا جائز ہے ان کا قتل جائز نہیں ہے اگرمحرم ان کا شکار کرے گا تو اس کو فدیہ دینا پڑے گا۔ حنابلہ کے نزدیک ہر وہ جانور جو انسان پر حملہ آور ہو یا اس کو ایذا دے محرم اس کو قتل کر سکتا ہے۔ علامہ ابن قدامہ کے نزدیک کوے کے ساتھ ابقع کی قید اتفاقی ہے اس لیے ہرکوا قتل کیا جائے گا۔ احناف کے نزدیک صرف ان پانچ جانوروں کا قتل جائز ہے باقی کے قتل پر فدیہ پڑے گا اور حنفیوں کے نزدیک زاغ، یعنی غراب زرع جو دانا کھاتا ہے کھانا جائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2862
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1829
1829. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ جانورضرررساں ہیں۔ انھیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ کوا، چیل، چوہا، بچھو، اورباؤلاکتا جو کاٹنے والاہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1829]
حدیث حاشیہ: یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے شارع ؑ نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہ نمائی فرمائی ہے کوا اور چیل ڈاکے زنی میں مشہور ہیں اور بچھو اپنی نیش زنی (ڈنک مارنے میں) ، چوہا انسانی صحت کے لیے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لیے انتہائی خطرناک۔ یہی وجہ جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1829
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3314
3314. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”پانچ جانور موذی ہیں، انھیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور باؤلا کتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3314]
حدیث حاشیہ: صحت انسانی کے لحاظ سے بھی یہ جانور بہت مضر ہیں۔ اگر ان میں سے ہر جانور کو اس کے مضر اثرات کی روشنی میں دیکھا جائے تو حدیث نبوی کا بیان صاف طور پر ذہن نشین ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3314
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1829
1829. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ جانورضرررساں ہیں۔ انھیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ کوا، چیل، چوہا، بچھو، اورباؤلاکتا جو کاٹنے والاہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1829]
حدیث حاشیہ: (1) یہ پانچوں جانور انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ یہ اذیت رسانی اور فساد انگیزی میں دوسرے جانوروں سے الگ رستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں فاسق کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حل و حرم میں مار دینے کا حکم دے کر مالی، جسمانی، اقتصادی اور غذائی مسائل کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ (2) کوا اور چیل ڈاکا زنی میں مشہور ہیں۔ کوا اونٹ کی پشت پر چونچیں مارتا ہے۔ اگر اونٹ کمزور ہو تو اس کی آنکھ نکال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا کھانا چھین لیتا ہے۔ اسی طرح چیل بھی گوشت چھین لیتی ہے۔ بچھو ڈنگ مارنے میں مشہور ہے۔ اس کے ڈسنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ چوہا انسانی صحت کے لیے ضرر رساں، غذائی ذخیروں کا دشمن، چراغ سے بتی نکال کر سارے گھر کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے اور باؤلا کتا بھی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ وہ لوگوں کو زخمی کرتا ہے۔ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ انہیں احرام کی حالت میں قتل کرنا جائز ہے اور حرم کے اندر بھی انہیں مارا جا سکتا ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ واجب القتل مجرم اگر حرم میں پناہ گزیں ہو جائے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 54/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1829