ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء ۱؎ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، محمد بن صیفی، سلمہ بن الاکوع، ہند بن اسماء، ابن عباس، ربیع بنت معوذ بن عفراء، عبدالرحمٰن بن سلمہ خزاعی، جنہوں نے اپنے چچا سے روایت کی ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کے روزہ رکھنے پر ابھارا، ۲- ابوقتادہ رضی الله عنہ کی حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور روایت میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ احمد اور اسحاق کا قول بھی ابوقتادہ کی حدیث کے مطابق ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 752]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر رقم: 749 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں“، چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا“ تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہو جائے، بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم دیا ہے کہ ”تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو“۔
ثلاث من كل شهر رمضان إلى رمضان فهذا صيام الدهر كله صيام عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده صوم يوم عاشوراء إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 752
اردو حاشہ: 1؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں، نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں“ چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ 9محرم کا روزہ بھی رکھوں گا“ تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہو جائے، بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم دیا ہے کہ ”تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 752
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2425
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ روزہ کس طرح رکھتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے اس سوال پر غصہ آ گیا، عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا: «رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا نعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله»”ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی و مطمئن ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں“ عمر رضی اللہ عنہ یہ کلمات برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2425]
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناراض ہونا اس بنا پر تھا کہ اس نے اپنی ہمت اور طاقت سے زیادہ کا سوال کیا تھا۔ جبکہ اس سلسلے میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مزاج شناس رسول تھے، بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ، وہ جانتے تھے کہ آپ کا غصہ کس طرح سے دور ہو سکتا ہے اور وہ تھا... ایک اللہ کی ربوبیت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت اور اسلام کے دین ہونے کا اقرار، بلکہ اس کے لیے دلی طور پر رضامندی کا اظہار کرنا۔
(3)بغیر کسی انقطاع کے مسلسل روزے رکھنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور وعید فرمایا کہ ایسے شخص کو نہ روزوں کا ثواب ملا اور نہ اس نے افطار کا لطف پایا، یعنی جائز نہیں ہے۔ دوسری صورت کہ دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا، یہ بھی ایک بھاری اور مشکل عمل ہے، تیسری صورت میں بھی مشقت ہے مگر اس سے بھی آسان ترین اور اجر میں کامل ہر مہینے میں تین روزے رکھنا مرغوب و مطلوب ہے۔
(4) عاشورا اگرچہ دسویں محرم کو کہتے ہیں مگر اس کے لیے بھی ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ رکھنا چاہیے۔ (مزید تفصیل آگے احادیث:2442 و مابعد میں آ رہی ہے) (5) گذشتہ سال کا کفارہ اس معنی میں ہے کہ اس کی تقصیرات معاف کر دی جاتی ہیں اور آئندہ سال کا کفارہ اس معنی میں ہے کہ اللہ اسے گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا اگر ہو جائیں تو معاف فرما دے گا۔ خیال رہے کہ اس قسم کی تمام ترغیبی و تشویقی احادیث اس امر سے مشروط ہیں کہ یہ اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے ہان شرف قبولیت پا لیں، تبھی یہ اجر مرتب ہو گا... اور کسے خبر کہ اس کا عمل فی الواقع قبول ہو گیا ہے۔ اس لیے مومن اعمال خیر کر کے دھوکے میں نہیں آ سکتا۔ بلکہ قبولیت کی امید پر مزید اعمال صالحہ کے لیے محنت کرتا اور فکرمند رہتا ہے کہ کہیں اس کے اعمال رد ہی نہ کر دیے جائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2425
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 749
´عرفہ کے دن کے روزے کی فضیلت کا بیان۔` ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن ۱؎ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 749]
اردو حاشہ: 1؎: یوم عرفہ سے مراد 9 ذی الحجہ ہے جب حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں اور ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے اس لیے اس دن کا روزہ ان کے لیے مستحب نہیں ہے، البتہ غیر حاجیوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے، اس سے ان کے دو سال کے وہ صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ (یہ خیال رہے کہ مکے سے دور علاقوں کے لوگ اپنے یہاں کی رؤیت کے حساب سے 9؍ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ نہ رکھیں، بلکہ مکے کی رویت کے حساب سے 9؍ ذی الحجہ کا روزہ رکھیں کیوں کہ حجاج اسی حساب سے میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں مطلع اور ملک بدل جائے وہاں کے لوگ اپنے حساب نو ذی الحجہ کا روزہ رکھیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے 9 تک مسلسل روزے رکھے، اس لیے کہ ان دنوں میں کیے گئے اعمال کی فضیلت حدیث میں بہت آئی ہے اور سلف صالحین کا اس ضمن میں تعامل بھی روایات میں مذکور ہے، اور اس سے یوم عرفہ سے مراد مقام عرفات میں 9ذی الحجہ پر بھی عمل ہو جائے گا، واللہ اعلم۔
2؎: اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعد والے سال کے گناہوں کا وہ کفارہ کیسے ہو جاتا ہے جب کہ آدمی نے وہ گناہ ابھی کیا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال اللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا اتنی رحمت و ثواب اسے مرحمت فرما دے گا کہ وہ آنے والے سال کے گناہوں کا بھی کفارہ ہو جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 749