عبداللہ بن بسر کی بہن بہیہ صمّاء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہفتہ کے دن روزہ مت رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہو، اگر تم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبا لے (اور روزہ نہ رکھے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور اس کے مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ کے لیے ہفتے (سنیچر) کا دن مخصوص کر لے، اس لیے کہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 744]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصیام 512 (2421)، سنن ابن ماجہ/الصیام 38 (1726)، سنن الدارمی/الصوم 40 (1790)، (تحفة الأشراف: 15910) (صحیح) (اس کی سند میں تھوڑا کلام ہے، دیکھئے: الإرواء رقم: 960)»
وضاحت: ۱؎: جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے یعنی روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، ”سوائے اس کے کہ اللہ نے تم پر فرض کیا ہو کے لفظ“ میں فرض نذر کے کفاروں کے روزے شامل ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 744
اردو حاشہ: 1؎: جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے یعنی روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، ”سوائے اس کے کہ اللہ نے تم پر فرض کیا ہو“ کے لفظ میں فرض نذر کے کفاروں کے روزے شامل ہیں۔ نوٹ: (اس کی سند میں تھوڑا کلام ہے، دیکھئے: الإرواء رقم: 960)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 744
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 564
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے` سیدہ صماء بنت بسر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہفتہ کے دن کا روزہ نہ رکھو۔ سوائے اس روزہ کے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔ پس اگر تم میں سے کوئی انگور کا چھلکا یا کسی درخت کا تنکا پائے تو چاہیئے کہ اس کو کھا لے۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں مگر اس میں اضطراب ہے۔ بیشک امام مالک رحمہ اللہ نے اس کا انکار کیا ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ منسوخ ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 564]
564 لغوی تشریح: «لِحَاءَ عِنَبٍ» کے ”لام“ پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں اور آخر میں مد ہے۔ اس کے معنی ہیں: چھلکا۔ اور «العنب» کی ”عین“ کے نیچے زیر اور ”نون“ پر فتحہ ہے۔ مشہور پھل انگور کو عنب کہتے ہیں۔ «فَلْيَمُضَغْهَا» یہ باب «نَصَرَا» اور «فَتَحَ» دنوں سے آتا ہے، یعنی اسے کھا لے اور اس سے روزہ توڑ لے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کہ ہفتے کے دن روزے کی یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہود ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے تھے۔ اور اس کی تائید آئندہ حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
راوی حدیث: حضرت صماء بنت بسر رضی اللہ عنہ، «صماء» میں ”صاد“ پر زبر اور ”میم“ مشدد ہے۔ ان کا «بُهَيَّه» تھا اور «بهيه» کی ”با“ پر پیش ”ہا“ مفتوح اور ”یا“ مشدد ہے۔ اور ایک قول کے مطابق ان کا نام «بُهَيْمَه»(میم کے اضافے کے ساتھ) تھا۔ بسر کی ”با“ پر پیش اور ”را“ ساکن ہے۔ قبیلہ مازن سے تعلق رکھتی تھیں، صحابیہ تھیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عبداللہ بن بسر کی بہن تھیں اور بعض نے پھوپھی اور بعض نے خالہ کہا ہے۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 564
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2421
´سنیچر کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا منع ہے۔` عبداللہ بن بسر سلمی مازنی رضی اللہ عنہما اپنی بہن مّاء رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض روزے کے علاوہ کوئی روزہ سنیچر (ہفتے) کے دن نہ رکھو اگر تم میں سے کسی کو (اس دن کا نفلی روزہ توڑنے کے لیے) کچھ نہ ملے تو انگور کا چھلکہ یا درخت کی لکڑی ہی چبا لے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ منسوخ حدیث ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2421]
فوائد ومسائل: ہفتے کا دن یہودیوں کی عبادت کا دن ہے اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، لہذا آگے پیچھے کے دن ساتھ مل جائیں یا ملا لیے جائں تو کوئی حرج نہیں، مثلا ایام بیض، ایام عاشورا وغیرہ لیکن اگر قضا یا نذر کا روزہ ہو یا یوم عرفہ ہفتے کا دن میں پڑ رہا ہو یا کوئی صوم داود کا عامل ہو تو ہفتے کے دن کا روزہ مباح ہو گا۔ کیونکہ یہ تخصیص نہیں۔ امام ابوداود کا اس حدیث کو منسوخ کہنے سے مراد، بقول علامہ البانی رحمة اللہ علیہ، شاید ابن حبان اور حاکم کی یہ روایت ہو جناب کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت ابن عباس اور چند دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کن دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہفتے اور اتوار کو۔ میں یہ جواب لے کر ان حضرات کی خدمت میں پہنچا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس پر (تعجب آمیز) انکار کیا۔ اور پھر وہ سبھی ام المومنین کی خدمت میں چلے گئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ سے یہ یہ پچھوایا تھا اور آپ نے یوں یوں جواب دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کے دنوں میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مشرکین کے عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔ امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے مگر علامہ عبدالحق الاشبیلی رحمة اللہ علیہ نے الاحکام الوسطیٰ میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے ابھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:960) الغرض حدیث صحیح اور محکم ہے منسوخ نہیں اور عنوان باب ہی سےسب اشکالات ختم ہو جاتے ہیں، یعنی اس دن کو خاص کرنا جائز نہیں، جمعے یا اتوار کا دن ساتھ ملا لینا ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2421