عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما سے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے، ۳- اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں: جب میت پر نذر والے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزہ رکھا جائے گا، اور جب اس پر رمضان کی قضاء واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلایا جائے گا، مالک، سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 718]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصیام 50 (1757) (تحفة الأشراف: 8423) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں، نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1757) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (389) ، المشكاة (2034 / التحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير (5853) //
قال الشيخ زبير على زئي: (718) إسناده ضعيف /جه 1757 أشعت بن سوار ومحمد بن أبى ليلي ضعيفان : (تقدما:194 ،649)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1757
´کوتاہی سے میت کے رہ جانے والے روزوں کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر جائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1757]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اما م ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتوی تو ہے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے طو ر پر صحیح سند سے مروی نہیں (جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء في الکفارۃ، حدیث: 718) ۔
(2) امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر جو عنوان لکھا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کی رائے میں اگر روزوں کی قضا نہ دینے میں مرنے والے کی کوتاہی کو دخل نہ بلکہ اسے قضا ادا کرنے کا مو قع ہی نہ ملا ہو تو اس کی طرف سے کھانا کھلانے کی ضرورت نہیں اس مسئلے کی بابت مزید دیکھیے: حدیث 1759 کے فوائد و مسا ئل۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1757