عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے پہلے ۱؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔ ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 688]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصیام 7 (2327)، سنن النسائی/الصیام 12 (2126)، (تحفة الأشراف: 6105)، وأخرجہ موطا امام مالک/الصیام 1 (3)، و مسند احمد (1/221)، وسنن الدارمی/الصوم1 (1725) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”رمضان سے پہلے“ سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے، مطلب یہ ہے کہ ۱۵ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزوں کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔
۲؎ یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور ۲۹ شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں، اسی طرح اگر ۲۹ رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عید الفطر منائی جائے۔
لا تقدموا الشهر بصيام يوم ولا يومين إلا أن يكون شيء يصومه أحدكم لا تصوموا حتى تروه ثم صوموا حتى تروه إن حال دونه غمامة فأتموا العدة ثلاثين ثم أفطروا الشهر تسع وعشرون
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 688
اردو حاشہ: 1؎: ”رمضان سے پہلے“ سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے، مطلب یہ ہے کہ 15 شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزے کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔
2؎: یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور 29 شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں، اسی طرح اگر 29 رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عیدالفطر منائی جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 688
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2127
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو مہینہ شروع ہونے سے پہلے (ہی) روزہ رکھنے لگتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، (اسی طرح) جب (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) جب تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2127]
اردو حاشہ: ”تعجب ہے“ یعنی رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے مشکوک (شعبان کے تیسویں) دن کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے کہ یہ تکلف اور تشدد ہے۔ صحیح روایات میں اس دن کا روزہ رکھنا رسول اللہﷺ کی نافرمانی بتلایا گیا ہے۔ جن اہل علم نے احتیاطاً نفل روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے شاید انہوں نے ان الفاظ کی سختی پر غور نہیں فرمایا۔ باقی رہی فرض اور نفل کی تفریق (کہ فرض منع ہے نفل جائز ہے) تو یہ بات حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاند دکھانے میں احتیاط نہیں فرمائی تو ہمیں خواہ مخواہ اس احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2127
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2131
´اس سلسلہ میں ربعی کی حدیث میں منصور پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (رمضان کے چاند کو) دیکھ کر روزہ رکھو، اور اسے (یعنی عید الفطر کے چاند کو) دیکھ کر روزہ بند کرو، (اور) اگر تمہارے اور اس کے بیچ بدلی حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو، اور (ایک یا دو دن پہلے سے رمضان کے) مہینہ کا استقبال نہ کرو۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2131]
اردو حاشہ: اگرچہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن کثیر شواہد ومتابعات کی وجہ سے متن حدیث صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2131
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2132
´اس سلسلہ میں ربعی کی حدیث میں منصور پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے پہلے روزہ مت رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور (چاند) دیکھ کر (روزہ) بند کرو، (پس) اگر چاند سے ورے بادل حائل ہو جائے تو تیس (دن) پورے کرو۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2132]
اردو حاشہ: اس مفہوم کی روایات کی اس قدر تکرار بعض اسنادی اختلاف ظاہر کرنے کے لیے ہے جن کا علم مذکورہ روایات کی سندوں کے گہرے جائزے سے ہوگا، البتہ اس اختلاف کا حدیث کے متن پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑتا کیونکہ متن متفق علیہ ہے، بلکہ اس تکرار سے متن کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کثیر صحابہ اور بہت زیادہ راویوں سے مروی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اختلاف سے مراد ہر جگہ غلطی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے مقامات پر اختلاف کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ حدیث ان تمام صحابہ اور تابعین وغیرہ سے آتی ہے اور یہ سب سندیں صحیح ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2132
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2176
´اس حدیث میں ابوسلمہ سے روایت کرنے میں یحییٰ بن ابی کثیر اور محمد بن عمرو پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(رمضان) سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ مت رکھو، البتہ سوائے اس کے کہ یہ اس دن آ پڑے جس دن تم میں کا کوئی (پہلے سے) روزہ رکھتا رہا ہو۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ سند غلط ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2176]
اردو حاشہ: امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر راوی کی غلطی ہے۔ اور یہ بات درست ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2176
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2191
´شک والے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔` سماک کہتے ہیں: میں عکرمہ کے پاس ایک ایسے دن میں آیا جس کے بارے میں شک تھا کہ یہ رمضان کا ہے یا شعبان کا، وہ روٹی سبزی، اور دودھ کھا رہے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا: آؤ کھاؤ، تو میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم ضرور روزہ توڑو گے، تو میں نے دو مرتبہ سبحان اللہ کہا، اور جب میں نے دیکھا کہ وہ قسم پہ قسم کھائے جا رہے ہیں اور ان شاءاللہ نہیں کہہ رہے ہیں تو میں آگے بڑھا، اور میں نے کہا: اب لائیے جو آپ کے پاس ہے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2191]
اردو حاشہ: (1)”لائیے جو آپ کے پاس ہے۔“ زیادہ درست یہ ہے کہ جب انہوں نے حضرت عکرمہ کو اتنے جزم ویقین سے قسم کھاتے دیکھا تو وہ کھانا کھانے پر آمادہ ہوگئے کیونکہ انہیں یقین ہوگیا کہ آج واقعتا روزہ رکھنا درست نہیں، اس لیے کہا: لائیے کھانا۔ دوسرے معنیٰ بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ آپ جو اس قدر پختہ اور تاکیدی قسم کھا رہے ہیں، کوئی دلیل بھی دیجئے۔ واللہ أعلم (2) شعبان کی تیس تاریخ کو شک نہ بھی ہو، تب بھی روزہ رکھنا منع ہے۔ اسی طرح انتیس تاریخ کو بھی منع ہے کیونکہ اس طرح رمضان اور شعبان کے روزے مل جائیں گے جبکہ آپ نے منع فرمایا ہے۔ الا یہ کہ کسی شخص کو کسی مخصوص دن، مثلاً: سوموار یا جمعرات کو روزہ رکھنے کی عادت ہو اور وہ دن اس تاریخ کو آجائے جیسا کہ پیچھے گزرا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2191
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2327
´انتیس تاریخ کو بادل ہوں تو پورے تیس روزے رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی روزے رکھنے شروع نہ کر دو، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے روزے نہ رکھو، پھر روزے رکھتے جاؤ، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی روزے رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2327]
فوائد ومسائل: یہ روایت ضعیف ہے، لیکن بعض کے نزدیک صحیح ہے، کیونکہ یہ باتیں صحیح روایات میں بیان ہوئی ہیں۔ رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے اگر کوئی قضا یا نذر کا روزہ پورا کرنا چاہتا ہو یا اس کی عادت ہو کہ سوموار اور جمعرات کے روزے رکھتا ہو تو رکھ سکتا ہے، یہ استقبالی روزے شمار نہ ہوں گے، کیونکہ یہ اس کے دائمی اور مسلسل عمل کا حصہ ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2327
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:523
523- محمد بن حنین بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنا۔ وہ اس شخص پر حیرانگی کا اظہار کررہے تھے، جو رمضان کا مہینہ شروع کرنے سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتا ہے۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جب تم اسے (پہلی کے چاند کو) دیکھ لو تو روزے رکھنا شروع کرو، اور جب تم اسے دیکھو تو روزے رکھنا ختم کردو، اور اگر تم پر بادل چھائے ہوئے ہوں، تو تم تیس کی تعداد مکمل کرلو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:523]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمضان کا چاند دیکھنے سے روزہ فرض ہو جاتا ہے، اس طرح ماہ شوال کا چاند طلوع ہونے سے رمضان کے روزے مکمل ہو جاتے ہیں۔ اگر ابر آلود (بادل وغیرہ) ہوں، اور مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے شعبان کی انتیس تاریخ کو رمضان کا چاند نظر نہ آئے تو پھر روزہ نہیں رکھنا چا ہیے، بلکہ تیس دن پورے کر لینے چاہئیں تاکہ روزے کی بنیاد یقین پر ہو نہ کہ شک پر، اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 523