عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين»”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے“ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- امام ترمذی نے عمر رضی الله عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے، ۳- اس باب میں زیادہ تر چیزیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 55]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14080) وأخرجہ بدون قولہ ”اللھم اجعلني …“ کل من: صحیح مسلم/الطھارة 6 (234)، والطھارة 65 (169)، و سنن النسائی/الطھارة 109 (148)، والطھارة 60 (470)، و مسند احمد (1/146، 151، 153) من طریق عقبة بن عامر عن عمر (تحفة الأشراف: 10609) (صحیح) (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم 162)»
وضاحت: ۱؎: عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم: ۲۳۴) اور اس میں «اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» کا اضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہر عضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت «اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه» اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت «اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً» ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
۳؎: ترمذی کی سند میں ابو ادریس“ کی روایت براہ راست عمر رضی الله عنہ سے ہے، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ”ابو ادریس“ کے بعد ”جبیر بن نفیر عن عقبہ بن عامر، عن عمر“ ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے، بہرحال ترمذی کی روایت میں «اللهم أجعلني …» کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی الله عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۹۶، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (470)
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف بهذا اللفظ أبو إدريس لم يسمع من عمر ، وأبو عثمان هو سعيد بن هاتي (مسند الفاروق لابن كثير 111/1) وهما يرويان عن جبير بن نفير عن عقبه بن عامر (مسلم 234ب) فالمسند معلل والحديث صحح بدون الزيادة : ” اللهم اجعلني التوابين واجعلني من المتطهرين “ انظر صحيح مسلم : 234
من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين فتحت له ثمانية أبواب الجنة يدخل من أيها شاء
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 55
17: وضو کے بعد درج ذیل دعائیں پڑھیں:
٭ «اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ»
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ (معبود برحق) نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اس (اللہ) کے بندے اور رسول ہیں۔ [مسلم: ب 17/ 234 وترقيم دار السلام: 554]
جو شخص پورا (مسنون) وضو کر کے یہ دعا پڑھتا ہے (پھر دو رکعتیں پڑھتا ہے) اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جس میں سے چاہے گا وہ داخل ہو گا۔ [مسلم: 234] تنبیہ: سنن الترمذی (55) کی ضعیف روایت میں «اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» کا اضافہ موجود ہے لیکن یہ روایت، سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو ادریس الخولانی اور ابو عثمان (سعید بن ہانئ/ مسند الفاروق لابن کثیر 1/ 111) دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا، نیز دیکھئے میری کتاب ”انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ“(ت: 55)
٭ «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، اَسْتَغْفِرُكَ وَاَتُوْبُ اِلَيْكَ»
اے اللہ! تُو پاک ہے اور حمد و ثنا تیری (ہی) ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ (معبود برحق) نہیں، تجھی سے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور میں نے تیری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (النسائی فی الکبریٰ: 9909 وسندہ صحیح، عمل الیوم واللیلۃ: 81 وقال النسائی: ”ھٰذا خطأ والصواب موقوف“ والموقوف رواہ النسائی فی الکبریٰ: 9910 وسندہ صحیح، والموقوف والمرفوع صحیحان والحمدللہ) تنبیہ: وضو کے بعد، آسمان کی طرف نظر اٹھا کر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے دعائے وضو کا پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ سنن ابی داود (170) کی جس روایت میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کا ذکر آیا ہے اس کی سند ابن عم زہرہ (مجہول) کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن عم زہرہ کو حافظ منذری نے مجہول کہا ہے۔ (دیکھئے عون المعبود 1/ 66 مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان)
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 200 تا 204)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 200
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 55
اردو حاشہ: 1؎: عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم: 234) اور اس میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ)) کا اضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہرعضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت ((اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه)) اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت ((اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً)) ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
2؎: ترمذی کی سند میں ”ابو ادریس کی روایت براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے ہے، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ”ابو ادریس“ کے بعد ”جبیر بن نفیرعن عقبہ بن عامر، عن عمر“ ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے، بہر حال ترمذی کی روایت میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي...)) کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم 96، وصحیح أبی داود رقم 162) نوٹ: (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم 162)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 55