ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل نے آ کر کہا: اے محمد! جب آپ وضو کریں تو (شرمگاہ پر) پانی چھڑک لیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے سنا ہے کہ حسن بن علی الھاشمی منکر الحدیث راوی ہیں ۲؎، ۳- اس حدیث کی سند میں لوگ اضطراب کا شکار ہیں، ۴- اس باب میں ابوالحکم بن سفیان، ابن عباس، زید بن حارثہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 50]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/ الطہارة 58 (463) (تحفة الأشراف: 13644) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بن علی ہاشمی ضعیف ہیں، قولی حدیث ثابت نہیں، فعل رسول صلی الله علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے، دیکھئے: الضعیفة 1312، والصحیحة 841)»
وضاحت: ۱؎: اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ وسوسہ ختم ہو جاتا ہے کہ شاید شرمگاہ کے پاس کپڑے میں جو نمی ہے وہ ہو نہ ہو پیشاب کے قطروں سے ہو، اور ظاہر بات ہے کہ وضو کے بعد اس طرح کی نمی ملنے پر یہ شک ہو گا، لیکن اگر پیشاب کے بعد اور وضو سے پہلے نمی ہو گی تو وہ پیشاب ہی کی ہو گی۔
۲؎: حسن بن علی نوفلی ہاشمی کی وجہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث ضعیف ہے، مگر اس باب میں دیگر صحابہ سے فعل رسول ثابت ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (463) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (103) ، الضعيفة (1312) ، الصحيحة (2 / 519 - 520) ، المشكاة (367 / الحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير - بترتيبى - رقم (2622) //
قال الشيخ زبير على زئي: (50) إسناده ضعيف / جه 463 الحسن بن علي الهاشمي منكر الحديث كما قال البخاري رحمه الله وانظر كتاب الضعفاء بتحقيقي (65)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 50
اردو حاشہ: 1؎: اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ وسوسہ ختم ہو جاتا ہے کہ شاید شرمگاہ کے پاس کپڑے میں جو نمی ہے وہ ہو نہ ہو پیشاب کے قطروں سے ہو، اور ظاہر بات ہے کہ وضو کے بعد اس طرح کی نمی ملنے پر یہ شک ہو گا، لیکن اگر پیشاب کے بعد اور وضو سے پہلے نمی ہو گی تو وہ پیشاب ہی کی ہوگی۔
2؎: حسن بن علی نوفلی ہاشمی کی وجہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ضعیف ہے، مگر اس باب میں دیگر صحابہ سے فعل رسول ثابت ہے۔
نوٹ: (اس کے راوی حسن بن علی ہاشمی ضعیف ہیں، قولی حدیث ثابت نہیں، فعل رسول ﷺ سے یہ عمل ثابت ہے، دیکھئے: الضعیفۃ 1312، والصحیحۃ 841)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 50