سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اور قتادہ نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً) روایت کی ہے۔ اور بعض نے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسند کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غسل کے بدلے وضو بھی کافی ہو جائے گا، ۵- شافعی کہتے ہیں: جمعہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جو چیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر رضی الله عنہ کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان رضی الله عنہ سے کہا ہے کہ تم نے صرف وضو پر اکتفا کیا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا ہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے، اختیاری نہیں تو عمر رضی الله عنہ عثمان رضی الله عنہ کو لوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اور ان سے کہتے: جاؤ غسل کرو، اور نہ ہی عثمان رضی الله عنہ سے اس بات کے جاننے کے باوجود کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 497]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الطہارة 130 (354)، سنن النسائی/الجمعة 9 (1381)، (تحفة الأشراف: 4587)، مسند احمد (5/15، 16، 22) (صحیح) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی الله عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کا غسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 497
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جمعہ کاغسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضوکی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھاقراردیا گیا ہے اوردوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ نوٹ:
(یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اورسب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 497
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 101
´جمعہ کے روز غسل` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جمعہ کے روز جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو بہرحال افضل ہے اور بہترین ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 101]
لغوی تشریح: «فَبِهَا»”ہا“ سے مراد ”سنت“ یا ”رخصت“ یا ”خصلتِ حمیدہ“ ہے اور یہ جار مجرور «أَخَذَ» محذوف کے متعلق ہے۔ «نِعْمَتْ» یہ فعل مدح ہے۔ اس کا فاعل «هِيَ» ضمیر مستتر ہے جس کا مرجع ”سنت“ یا ”رخصت“ یا ”خصلت حمیدہ“ ہے اور مخصوص بالمدح محذوف ہے، یعنی «هٰذِهٖ» ۔
فائدہ: یہ حدیث جمعے کے روز غسل کے عدم وجوب کے مؤقف کی تائید کرتی ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ لیکن جو حدیث اس (جمعے کے روز غسل کرنے) کے وجوب پر دلالت کرتی ہے وہ عدم وجوب پر دلالت کرنے والی حدیث سے صحیح، زیادہ راجح اور زیادہ قوی ہے، اس لیے اصح، راجح اور قوی کو اختیار کرنا زیادہ محتاط طریقہ ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا سَمُرَہ رضی اللہ عنہ)”سین“ کے فتحہ اور ”میم“ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ «جُنْدُب»”جیم“ پر ضمہ، ”نون“ ساکن اور ”دال“ پر بھی ضمہ ہے۔ مشہور صحابی رسول ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ فزار قبیلہ کے فرد ہونے کی وجہ سے فزاری کہلائے۔ انصار سے حلیفانہ روابط و تعلقات تھے۔ یہ ان حفاظ میں سے تھے، جنھیں بکثرت احادیث و قرآن یاد تھا۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ خوارج کے گروہ حروریہ کے سلسلے میں بڑے سخت تھے۔ 59 ہجری کے آخر میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 101
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 354
´جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔` سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 354]
354۔ اردو حاشیہ: ان احادیث سے یہ استدلا ل کیا جاتا ہے کہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے۔ بلاشبہ ابتداء حکم کی بنیادی وجہ یہی تھی جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، مگر مسلمان جب اس کے قائل و فاعل ہو گئے تو انہیں اس کا شرعی اعتبار سے پابند کر دیا گیا، جیسا کہ گزشتہ باب میں صحیح احادیث سے ثابت ہوا ہے۔ اب اگرچہ وہ بنیادی سبب تو موجود نہیں مگر حکم وجوب باقی ہے جیسے کہ مسئلہ حج میں طواف قدوم میں رمل کرنا (آہستہ آہستہ دوڑنے) کا بنیادی وجود نہیں ہے، مگر حکم وجوب باقی ہے، اس لیے راجح یہی ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں غفلت بہت بڑی محرومی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 354
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1381
´جمعہ کے دن غسل نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔` سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور یہ خوب ہے ۱؎ اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ”حسن بصری“ نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو ان کی کتاب سے روایت کیا ہے، کیونکہ حسن نے سمرہ سے سوائے عقیقہ والی حدیث کے کوئی اور حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1381]
1381۔ اردو حاشیہ: ➊ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ روایت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے براہِ راست نہیں سنی بلکہ ان کی کتاب سے بیان کی ہے، اس میں وہ سماع کی تصریح نہیں کرتے۔ حسن کی حضرت سمرہ سے روایت کے بارے میں محدثین کی تین آراء ہیں، حسن کا سمرہ سے علی الاطلاق سماع ثابت ہے۔ گویا اس طرح ان کی تمام مرویات سماع پر محمول ہوں گی۔ یہ موقف امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد علی بن مدینی رحمہ اللہ کا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ اوسط میں ذکر کیا ہے، نیز امام ترمذی اور امام حاکم رحمہ اللہ رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ حسن نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا، یعنی سرے سے ان کا حضرت سمرہ سے سماع ہی ثابت نہیں۔ یہ رائے امام ابن حبان رحمہ اللہ کی ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام شعبہ بھی اسی کے قائل ہیں، لیکن اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ امام حسن کا حضرت سمرہ سے صرف حدیث عقیقہ میں سماع ثابت ہے اور بس۔ یہ موقف امام نسائی رحمہ اللہ کا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا بھی اپنی سنن میں اسی طرف رجحان ہے۔ امام عبدالحق اور امام بزار وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ تاہم دلائل کی رو سے راجح موقف امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ ہی کا ہے، یا جس روایت میں وہ خود حضرت سمرہ سے سماع کی تصریح فرما دیں، یا شواہد کی روشنی میں اسے تقویت ملتی ہو تو وہی روایت قابل حجت ہو گی وگرنہ نہیں۔ حدیث عقیقہ میں امام حسن نے حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے خود سماع کی تصریح فرمائی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن السنائي: 131/16، 132] ➋ جمہور علماء اس حدیث کے پیش نظر غسل جمعہ کو مستحب قرار دیتے ہیں لیکن ان کی رائے محل نظر ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ: ”جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔“ وجوب کے منافی نہیں، کسی چیز کی افضیلت سے اس کے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ اس حدیث کے مفہوم کو مزید سمجھنے کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1381