ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی فجر کی دو رکعت (سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے، ۴- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیا جائے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 420]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 293 (1261)، (تحفة الأشراف: 12435)، مسند احمد (2/415) (صحیح) (بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر: تالیف: محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، تالیف: عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے فجر کی سنت کے بعد تھوڑی دیر دائیں پہلو پر لیٹنا مسنون ہے، بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن یہ رائے صحیح نہیں، قولی اور فعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے، بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اور مدلس کا عنعنہ مقبول نہیں ہوتا، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے، حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں «ھو مدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلا کلام، ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثر عنہم کا براہیم وأبي وائل وابی صالح السمّان، فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال» ہاں، یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو، جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال رضی الله عنہ آ کر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔ مگر خیال ہے کہ اس دوران اگر نیند آنے لگے تو اٹھ جانا چاہیئے، اور واقعتاً نیند آ جانے کی صورت میں جا کر وضو کرنا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1206) ، صحيح أبي داود (1146)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 420
اردو حاشہ: نوٹ: (بعض اہل علم کی تحقیق میں نبی اکرم ﷺ سے لیٹنے کی بات صحیح ہے، اور قول نبوی والی حدیث معلول ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: إعلام أہل العصر بأحکام رکعتی الفجر: تالیف: محدث شمس الحق عظیم آبادی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، تالیف: عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 420
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1261
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹ جائے“، اس پر ان سے مروان بن حکم نے کہا: کیا کسی کے لیے مسجد تک چل کر جانا کافی نہیں کہ وہ دائیں کروٹ لیٹے؟ عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں، تو پھر یہ خبر ابن عمر رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انہوں نے کہا: ابوہریرہ نے (کثرت سے روایت کر کے) خود پر زیادتی کی ہے (اگر ان سے اس میں سہو یا غلطی ہو تو اس کا بار ان پر ہو گا)، وہ کہتے ہیں: ابن عمر سے پوچھا گیا: جو ابوہریرہ کہتے ہیں، اس میں سے کسی بات سے آپ کو انکار ہے؟ تو ابن عمر نے جواب دیا: نہیں، البتہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (روایت کثرت سے بیان کرنے میں) دلیر ہیں اور ہم کم ہمت ہیں، جب یہ بات ابوہریرہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: اگر مجھے یاد ہے اور وہ لوگ بھول گئے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1261]
1261۔ اردو حاشیہ: اس مسئلے میں «اعلام اهل العصر بأحكام ركعتي الفجر» علامہ شمس الحق ڈیانوی کی ایک اہم مفصل کتاب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹنا سنت ہے، خواہ کسی نے تہجد پڑھی ہو یا نہ۔ اور اس کے راوی حضرت عائشہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1261
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 290
´نفل نماز کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے کوئی شخص جب نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ چکے تو اسے اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جانا چاہیئے۔“ اس حدیث کو احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے روایت اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 290»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الاضطجاع بعدها، حديث:1261، والترمذي، الصلاة، حديث:420، وأحمد:2 /415.*سليمان بن مهران الأعمش مدلس وقد عنعن، وعنعنة المدلس ضعيفة علي الراجح إلا إذا صرح بالسماع في طريق آخر أو توبع من مقبول الحديث.»
تشریح: 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر مذکورہ مسئلے کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث بخاری سے بھی اس مسئلے کی تائید و توثیق ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۵ /۲۱۸‘ حدیث:۹۳۶۸) لہٰذا مذکورہ روایت سندا ً ضعیف ہونے کی باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ 2. دو احادیث سے فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد دائیں پہلو پر تھوڑا سا لیٹ کر استراحت کرنا مسنون ثابت ہوتا ہے۔ ایک حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور دوسری سے آپ کا حکم ثابت ہے‘ چنانچہ اس بنا پر اہل ظواہر کے نزدیک یہ لیٹنا واجب ہے اور جو نمازی اس پر جان بوجھ کر عمل نہیں کرتا اس کی نماز فجر نہیں ہوتی‘ تاہم امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ سنت ہے۔ بعض نے اسے مکروہ سمجھا ہے مگر صحیح حدیث کے مقابلے میں یہ رائے قطعاً درست نہیں۔ 3. شارح سنن ابوداود مولانا شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ نے إعلام أھل العصر بأحکام رکعتي الفجر میں اس مسئلے کی بابت بڑی تفصیل سے قابل قدر بحث کی ہے ‘ وہ فرماتے ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹنا سنت ہے‘ خواہ کسی نے تہجد پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 290