جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے مدینہ میں بخار آ گیا تو وہ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاس آیا اور کہنے لگا، آپ مجھے میری بیعت پھیر دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا، پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ میری بیعت مجھے پھیر دیں تو پھر آپ نے انکار کیا، پھر وہ اعرابی مدینہ چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کر دیتا ہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کر دیتا ہے پاک کو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3920]
وضاحت: ۱؎: یعنی لوہار کی بھٹی جس طرح لوہے کے میل اور اس کے زنگ کو دور کر دیتی ہے اسی طرح مدینہ اپنے یہاں سے برے لوگوں کو نکال پھینکتا ہے۔ اور مدینہ کی یہ خصوصیت کیا صرف عہد نبوی تک کے لیے تھی (جیسا کہ قاضی عیاض کہتے ہیں) یا عہد نبوی کے بعد بھی باقی ہے؟ (جیسا کہ نووی وغیرہ کہتے ہیں) نووی نے حدیث دجال سے استدلال کیا ہے کہ اس وقت بھی مدینہ ایسا کرے گا، کہ برے لوگوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرے گا، اب اپنی یہ بات کہ بہت سے صحابہ و خیار تابعین بھی مدینہ سے باہر چلے گئے، تو کیا وہ لوگ بھی برے تھے؟ ہرگز نہیں، اس حدیث کا مطلب ہے: جو مدینہ کو برا جان کر وہاں سے نکل جائے وہ اس حدیث کا مصداق ہے، اور رہے صحابہ کرام تو وہ مدینہ کی سکونت کو افضل جانتے تھے، مگر دین اور علم دین کی اشاعت کے مقصد عظیم کی خاطر باہر گئے تھے، رضی الله عنہم۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3920
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی لوہار کی بھٹی جس طرح لوہے کے میل اور اس کے زنگ کو دور کر دیتی ہے اسی طرح مدینہ اپنے یہاں سے برے لوگوں کو نکال پھینکتا ہے۔ اور مدینہ کی یہ خصوصیت کیا صرف عہد نبوی تک کے لیے تھی (جیساکہ قاضی عیاض کہتے ہیں) یاعہد نبوی کے بعد بھی باقی ہے؟ (جیساکہ نووی وغیرہ کہتے ہیں) نووی نے حدیث دجال سے استدلال کیا ہے کہ اس وقت بھی مدینہ ایسا کرے گا، کہ برے لوگوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرے گا، اب اپنی یہ بات کہ بہت سے صحابہ و خیارتابعین بھی مدینہ سے باہر چلے گئے، تو کیا وہ لوگ بھی برے تھے؟ ہرگز نہیں، اس حدیث کا مطلب ہے: جو مدینہ کو برا جان کر وہا ں سے نکل جائے وہ اس حدیث کا مصداق ہے، اور رہے صحابہ کرام تو وہ مدینہ کی سکونت کو افضل جانتے تھے، مگر دین اور علم دین کی اشاعت کے مقصد عظیم کی خاطر باہر گئے تھے، (رَضِیَِ اللہُ عَنْهُمْ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3920
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7322
´ مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان` «. . . عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّلَمِيِّ،" أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا . . .» ”. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7322]
دوسری حدیث: «. . . عَنْ الْجُعَيْدِ، سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ:" كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا وَثُلُثًا بِمُدِّكُمُ الْيَوْمَ"، وَقَدْ زِيدَ فِيهِ سَمِعَ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْجُعَيْدَ . . .» ”. . . جعید نے، انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صاع تمہارے وقت کی مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد کا ہوتا تھا، پھر صاع کی مقدار بڑھ گئی یعنی عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں وہ چار مد کا ہو گیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7330] تیسری حدیث: «. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ . . .» ”. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے رجم کا حکم دیا اور انہیں مسجد کی ایک جگہ کے قریب رجم کیا گیا جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7332]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7322 کا باب: «بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کئی ایک مسائل کو ثابت کرنے کے لیے قائم فرمایا ہے جس کے کئی اجزاء ہیں۔ مثلا مکہ اور مدینہ کے علماء کے اجماع کا بیان، مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات کا بیان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ اور اس کا متبرک ہونا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا بیان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا بیان وغیرہ۔
اس ایک باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کئی ایک مسائل کو حل فرمانے کا قصد رکھتے ہیں جن کی طرف اشارہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب پیش کی گئی احادیث کے ذریعے فرمایا ہے، آپ نے تحت الباب تقریبا چوبیس احادیث پیش فرمائی ہیں جن کا باب سے تعلق جزء یا چند اجزاء کے ساتھ قائم ہے لیکن کوئی ایک حدیث مکمل طور پر باب کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ جو بات ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اہل مدینہ کی خبر معتبر ہے کیوں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشاہدہ کیا ہے، جیسے مہاجرین اور انصار اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر اور قبر کا مشاہدہ کرنے والے حضرات جن کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں فرمایا ہے، وہ تمام چیزیں مراد ہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے باب کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ مدینہ تمام شہروں میں افضل ہے جہاں برے لوگ نہیں ٹھہر سکتے، وہاں کے لوگ حتی کہ علماء بھی اچھے ہی ہوں گے، مگر یہ فضیلت حیات نبوی کے ساتھ خاص تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «قال ابن بطال عن المهلب: فيه تفضيل المدينة على غيرها بما خصها الله به من أنها تنفي الخبث، و رتب على ذالك القول بحجية إجماع أهل المدينة، و تعقب بقول ابن عبدالبر أن الحديث دال على فضل المدينة، و لكن ليس الوصف المذكور لها فى جميع الأزمنه، بل هو خاص بزمن النبى صلى الله عليه وسلم لأنه لم يكن يخرج منها رغبة من الإقامة معه إلا من لا خير فيه.»[فتح الباري لابن حجر: 261/14] ”ابن بطال رحمہ اللہ مہلب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے مدینہ کی دیگر علاقوں پر تفضیل ظاہر ہوتی ہے اس امر کے ساتھ جو اللہ تعالی نے اسے خاص فرمایا کہ وہ مدینہ خبث کی نفی کرتا ہے اس پر اہل مدینہ کی حجیت کا قول مترتب ہے۔ اس کا جواب ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے قول سے تعاقب کیا جائے گا کہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دال تو ہے لیکن یہ اس کی صفت مذکور تمام زمانے میں عام نہیں ہے بلکہ یہ صفت عہد نبوی کے ساتھ خاص ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے اس میں اقامت اختیار کرنے سے وہی شخص اعراض کر سکتا ہے جس میں بھلائی نہ ہو۔“ علامہ مہلب رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے باب اور حدیث میں مناسبت بھی معلوم ہوئی اور ساتھ ہی ایک مسئلے کی وضاحت بھی۔ باب سے حدیث کا تعلق یہی ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں مدینہ منورہ کو فضیلت دی گئی ہے، یہی مطابقت باب کے ایک جزء سے ہے۔ اب جہاں تک اہل مدینہ کے عمل کا تعلق ہے تو اس پر تفصیلی گفتگو ہم ان شاء اللہ اس باب کے اختتام پر فائدے میں درج کریں گے۔ دوسری حدیث جو سائب بن یزید سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ فتح الباری میں موجود ہے: «ومناسة هذا الحديث للترجمة أن قدر الصاع مما اجتمع عليه أهل الحرمين بعد العهد النبوي و استمر، فلما ذار بنو أمية فى الصاع لم يتركوا اعتبار الصاع النبوي.»[فتح الباري لابن حجر: 263/14] ”حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت یہ ہے کہ صاع کی مقدار وہی رہی جس پر عہد نبوی کے اہل حرمین متفق ہو گئے تھے، تو جب بنو امیہ نے صاع میں زیادتی کی تو (اس کے باوجود بھی) عہد نبوی والے صاع کا اعتبار کرنا چھوڑا نہ گیا (بلکہ باقی رہا)۔“ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت کی جہت ان تفصیلات کی روشنی میں یہ قرار پائی کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اس (صاع) کی مقدار بڑھ گئی ہو گی مگر احکام شرعیہ میں جیسے صدقہ فطر وغیرہ ہے اسی صاع کے اعتبار سے ہو گا جو اہل مدینہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔
جو حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت اس طرح سے ہے کہ مسجد کے قریب یہ مقام جہاں انہیں رجم کیا گیا تھا تاریخی طور پر متبرک ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کیا کرتے تھے، لہٰذا یہاں سے اس جگہ کا متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہیں سے باب کے جزء کے ساتھ مناسبت بھی قائم ہوتی ہے۔ [ارشاد الساري: 89/12]، [عمدة القاري للعيني: 88/25] فائدہ: کیا اہل مدینہ کا ہر عمل حجت ہے؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ کا عمل مطلق حجت ہے حالانکہ یہ بات محل نظر ہے بلکہ خود امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ بات معتمد نہ تھی، امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اصل اہمیت قرآن و حدیث ہی کو حاصل تھی، ایک واقعہ اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے، ہارون رشید نے جب امام مالک رحمہ اللہ کو پیش کش کی تھی کہ آپ کی مؤطا کو قانون قرار دیا جائے، چنانچہ لکھا گیا ہے: «انه شاور مالكا فى أن يعلق الموطأ فى الكعبة، و يحمل الناس على ما فيه، فقال: لا تفعل، فان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا فى الفروع، و تفرقوا فى البلدان، و كل سنة مضت، قال: وفقك الله يا أبا عبدالله.»[حجة الله البالغه: 116/1]، [مفتاح السعادة 87/2] ”خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا کو ملک کا قانون قرار دے کر کعبہ میں لٹکا دیا جائے تاکہ لوگ اس کی اتباع پر مجبور ہوں، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فروع میں اختلاف تھا اور وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے، جو کچھ ان سے منقول ہے سب سنت ہے، ہارون نے معاملہ سمجھ کر فرمایا: اللہ تعالی آپ کو خیر کی توفیق عطا کرے۔“ اس حوالے سے یہ واضح ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ مطلق مدینے کے عمل کو حجت قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ ہر صحابی کی حدیث کو دین سمجھتے تھے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب «الأحكام فى أصول الأحكام» میں اس مسئلے پر بھی تفصیلی بحث فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف اہل مدینہ کو سنت کا علم رکھنے والا قرار دینا ناجائز ہے، چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و أما قولهم: إن أهل المدينة أعلم بأحكام رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن سواهم، فهو كزب و باطل، و إنما الحق أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم و هم العالمون بأحكامه سواء بقي منهم من بقي بالمدينة أو خرج منهم من خرج.»[الاحكام فى اصول الاحكام: 684/4] ”اور ان کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ جانتے تھے اپنے سے علاوہ کے، تو یہ جھوٹ ہے اور باطل ہے، لہٰذا جو صحیح اور حق بات ہے تو وہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے احکامات کو جانتے تھے چاہے وہ مدینے میں باقی رہے یا وہ وہاں سے کوچ کر گئے ہوں۔“
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ موطا کی سرکاری حیثیت کو شمولیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: «وهذا يدل على أن عمل أهل المدينة ليس عنده حجة لازمة لجميع الأمة . . . . .»[اعلام الموقعين: 297/2] یہ اس بات پر دال ہے کہ اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی جمیع امت پر اسے قبول کرنا ضروری ہے، اور یہ بات کہ (اہل مدینہ کا عمل حجت ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے نہ ہی مؤطا میں یہ بات کی ہے اور نہ کسی اور جگہ، بلکہ مطلب صرف ایک واقع کا اظہار ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عمل اہل مدینہ تمام امت پر مطلق حجت ہے سراسر غلط اور باطل ہے بلکہ جمہور اس کے مخالف ہیں، صاحب فقہ الاسلام نے بڑی عمدہ بات کہی، آپ رقمطراز ہیں: ”جمہور کا خیال ہے کہ مدینہ کو عمل میں باقی شہروں پر کوئی مرتبہ حاصل نہیں ہے، اختلاف کے وقت سنت ہی کی اتباع اصل شئی ہے، کسی عالم کا قول دوسرے پر حجت نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے، سب صاحب علم تھے، اصل چیز سنت ہے، کسی شہر کا علم تشریع کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔“[فقه الاسلام از شيخ احمد: ص 170] بلکہ اگر غور کیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں تھا، کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں ایسی روایات پیش کی ہیں جو اہل مدینہ کے عمل کے خلاف ہیں، دوسری مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: «عمن أخذ بحديث حدثه ثقة عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أتراه من ذالك فى سعة؟ فقال: لا والله يصيب الحق، و ما الحق الا واحد، قولان مختلفان يكونان صوابًا جميعًا؟ و ما الحق و الصواب الا واحد.»[جامع بيان العلم وفضله عن اشهب: 102/2] ”حدیث کسی سے لی جائے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ثقہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے روایت کرتا ہو، پھر پوچھا گیا کہ کیا اس بارے میں آپ کے نزدیک کوئی وسعت ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم نہیں ہے حتی کہ حق تک رسائی نہ ہو جائے، اور حق تو صرف ایک ہی ہوتا ہے، بھلا دو مختلف اقوال بھی باہم درست ہو سکتے ہیں؟ نہیں، حق اور صواب تو صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔“
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔“
نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔“[حصول المامول من علم الاصول: ص 59] ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .»[الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2] ”میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔“ بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 634
´اسلام میں صرف دو بیعتوں کا ثبوت ملتا ہے` «. . . عن جابر بن عبد الله: ان اعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاصاب الاعرابي وعك بالمدينة، فاتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، اقلني بيعتي. فابى النبى صلى الله عليه وسلم ثم جاءه فقال: اقلني بيعتي. فابى ثم جاءه فقال: اقلني بيعتي، فابى فخرج الاعرابي فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ”إنما المدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها . . .» ”. . . سیدنا جابر بن عبداللہ (الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے اسلام پر (مدینہ میں قائم رہنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، پھر اس اعرابی کو مدینے میں بخار ہو گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو اس نے دوبارہ آ کر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تو اس نے تیسری بار آ کر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا پھر وہ اعرابی (مدینے سے) نکل کر چلا گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو زرگر کی بھٹی کی طرح ہے، زنگار اور میل کو نکال دیتا ہے اور عمدہ کو نکھارتا اور چمکاتا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 634]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7211، ومسلم 1383، من حديث مالك به]
تفقه ➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بیعت شروط اسلام و فرائض و حدود و ہجرت وغیرہ بھی لیتے تھے۔ دیکھئے: [التمهيد 12/224] ➋ اسلام میں صرف دو بیعتوں کا ثبوت ملتا ہے: ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت۔ ② اور خلیفہ کی بیعت۔ ان کے علاوہ تیسری بیعت مثلاً سلاسل صوفیہ کے شیوخ اور نام نہاد کاغذی تنظیموں کی بیعت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ➌ مدینہ طیبہ فضیلت والا شہر ہے اور اس کے عام باشندے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت افضل و پسندیدہ ہیں۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے اور اطاعت سے انکار کرنے والا خبیث ہے۔ ➎ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مدینہ حرم ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 85
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4190
´بیعت توڑنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اس کو مدینے میں بخار آ گیا، تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت توڑ دیجئیے ۱؎، آپ نے انکار کیا، اس نے پھر آپ کے پاس آ کر کہا: میری بیعت توڑ دیجئیے، آپ نے انکار کیا، تو اعرابی چلا گیا ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے جو اپنی گندگی کو نکال پھینکتا ہے اور پاکیزہ کو اور خالص ب [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4190]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے۔ باب کا مطلب ہے کہ بیعت توڑنے کا کیا حکم ہے؟ رسول اﷲ ﷺ کے عمل سے ثابت ہوا کہ یہ کام ناجائز اور حرام ہے۔ کسی شخص نے اسلام پر بیعت کی ہویا ہجرت پر دونوں صورتوں میں بیعت توڑنا درست نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے مدینہ طیبہ کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی بھٹی کی طرح بنایا ہے جو شرپسند لوگوں کو نکال باہرپھینکتا ہے جبکہ بیعت سے متعلق احکام ومسائل ابرارو اخیار لوگ اس میں سکون وقرار حاصل کرتے ہیں۔ (3) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے نکل جانے والے لوگ مذموم ہیں۔ لیکن کلی طور پر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی تعداد نے مدینہ کو خیر باد کہہ کر دوسرے مقامات پر بسیرا کر لیا تھا۔ بعد میں بھی کئی اصحاب العلم فضلاء نے مدینہ چھوڑا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا مدینہ سے نکلنا مذموم ومکروہ ہے جنھیں مدینہ میں رہنا پسند، یعنی مدینہ سے کراہت اور بے رغبتی کرتے ہوئے اس سے نکل جائیں جیسا کہ اس اعرابی نے کیا تھا، تاہم جن لوگوں نے صحیح اور درست مقاصد کی خاطر مدینے کو خیر باد کہا، جیسے تبلیغ دین اور علم کی نشر واشاعت کے لیے، کفار و مشرکین کے علاقے فتح کرنے، سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دشمنان دین واسلام کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور نہ یہ اعمال حدیث میں وارد مذمت کے مصداق ہی ہیں۔ (4) جب اسلام پھیل گیا تو بعض لوگ مالی مفادات کے حصول کے لیے بھی اسلام قبول کرنے لگے۔ اسلام لانے کے بعد اگر مال حاصل ہوتا رہتا تو اسلام پر قائم رہتے اور اگر کوئی تکلیف آ جاتی یا مال نہ ملتا تو دین سے طرگشتہ ہوجاتے۔ شاید یہ اعرابی بھی اسی قسم کا تھا۔ ممکن ہے اس نے ہجرت کی بھی بیعت کی ہو، پھر بخار سے گھبرا کر مدینہ چھوڑنا چاہتا ہو نہ کہ اسلام۔ (5)”بھٹی کی طرح“ مدینہ منورہ میں رہ کر بہت سی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ آب وہوا کی ناموافقت، فقر وفاقہ، اجنبیت، ہر وقت حملے لڑائی کا خطرہ اور وقتاََ فوقتاََ جنگوں میں شرکت جبکہ اسلحہ اور حفاظتی سامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ ایسی چیزیں تھیں ناقص اور کمزور ایمان والا شخص برادشت نہیں کرسکتا تھا۔ اولوالعزم اور پختہ ایمان والے ہی ان آزمائشوں پرپورا اترتے تھے۔ (6) میل کچیل سے مراد ناقص الایمان اور منافق لوگ ہیں۔ ایسے لوگ مدینہ میں نہیں رہ سکتے مدینہ انھیں باہر نکال دیتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4190
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1277
1277- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی مدینہ منورہ آیا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر ہجرت کی بیعت کی اسے بخار ہو گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میری بیعت مجھے واپس کیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! پھر اس کا بخار تیز ہو گیا، وہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! پھر اس کا بخار اور تیز ہو گیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1277]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی فاسق و فاجر شخص مدینہ میں نہیں رہ سکتا صرف عمدہ اور اچھے لوگ مدینہ میں رہ سکتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1275
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3355
حضرت جابر بن عبداللہ رضی تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بدو (جنگلی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، تو اسے مدینہ میں شدید بخار چڑھ گیا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیعت واپس کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا، پھر وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا، میری بیعت واپس کر دو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، تیسری دفعہ حاضر ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3355]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: يَنْصَعُ: خالص اور صاف کر دیتا ہے، اس لیے خالص اور صاف کو اَلنَّاصِعْ کہتے ہیں۔ فوائد ومسائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خالص اور پاک صاف ایمان والے لوگ دوسروں سے ممتاز ہو جاتے تھے، اگرچہ عارضی اور وقتی طور پر چھپ جاتے تھے جن کی طرف: ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ﴾(آپ انہیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں) میں اشارہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3355
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1883
1883. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اسلام پر بیعت کی۔ جب وہ دوسرے دن بخار میں مبتلا ہواتو آپ کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ اپنی بیعت واپس لے لیں۔ آپ ﷺ نے تین دفعہ انکار کرتے ہوئے فرمایا”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے کہ وہ بُری چیز کو نکال دیتی ہے اور عمدہ چیز کو خالص کردیتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1883]
حدیث حاشیہ: حافظ نے کہا کہ اس گنوار کا نام مجھ کو معلوم نہیں اور زمخشری نے غلطی کی جو اس کا نام قیس بن ابی حازم بتایا وہ تو تابعی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1883
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7209
7209. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، پھر اسے بخار ہوگیا تو اس نے کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ یعنی فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر وہ خود ہی (مدینہ طیبہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے، یہ میل کچیل دور کر دیتا ہے اور خالص کو رکھ لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7209]
حدیث حاشیہ: بیعت فسخ کرانے کی درخواست دینا نا پسنددیدہ فعل ہے۔ مدینہ منورہ کی خاص فضیلت بھی اس سے ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7209
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7211
7211. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کی۔ پھر اسے مدینہ طیبہ میں سخت بخار آگیا تو وہ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیعت ختم کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت واپس لے لیں۔ آپ ﷺ نےاس مرتبہ بھی انکار کردیا۔ پھر وہ آخر خود باہر نکل گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ بھٹی کی مانند ہے، میل کچیل کو دور کردیتا ہے اور خالص مال کو رکھ لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7211]
حدیث حاشیہ: حضرت جابر بن عبد اللہ مشہور انصاری ہیں سب جنگوں میں شریک ہوئے۔ احادیث کثیرہ کے راوی ہیں سنہ74ھ میں بعمر94 سال وفات پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7322
7322. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کی اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ طیبہ میں اس کو بخت بخار نے آلیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت واپس لے لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کر دیا وہ پھر (تیسری مرتبہ) آیا اور کہا: میری بیعت توڑ دیں۔ تو آپ نے اس دفعہ بھی بیعت توڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ دیہاتی مدینہ طیبہ سے نکل گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو دور کرتی ہے اور خالص لوہے کو رکھ لیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7322]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ جب مدینہ سب شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کے اجماع ضرور معتبر ہوگا کیونکہ مدینہ میں برے اور بد کار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے۔ وہاں کے علماء سب سے اچھے ہی ہوں گے مگر یہ حکم حیات نبوی کے ساتھ تھا۔ بعد میں بہت سے اکابر صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7322
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7209
7209. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، پھر اسے بخار ہوگیا تو اس نے کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ یعنی فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر وہ خود ہی (مدینہ طیبہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے، یہ میل کچیل دور کر دیتا ہے اور خالص کو رکھ لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7209]
حدیث حاشیہ: 1۔ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنا اور اس میں رہائش رکھنا ضروری تھا اور ہجرت کے بعد یہاں سے جانا گناہ اور نافرمانی شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کو بیعت توڑنے کی اجازت نہ دی کیونکہ ایسا کرنے سے گناہ اور نافرمانی پر اس کا تعاون کرنا تھا۔ 2۔ مدینہ طیبہ کے متعلق جو وعید آئی ہے اس شخص کے لیے ہےجو بے رغبتی کرتے ہوئے یہاں سے خروج کرے البتہ کسی عظیم مقصد کے لیے مدینے سے باہر جا کر رہائش پذیر ہونا جائز ہے جیسا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دین اسلام کی نشرواشاعت کے لیے مدینہ طیبہ سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل گئے۔ وہ یقیناً اس وعید کی زد میں نہیں آئے۔ (فتح الباري: 247/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7209
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7211
7211. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کی۔ پھر اسے مدینہ طیبہ میں سخت بخار آگیا تو وہ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیعت ختم کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت واپس لے لیں۔ آپ ﷺ نےاس مرتبہ بھی انکار کردیا۔ پھر وہ آخر خود باہر نکل گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ بھٹی کی مانند ہے، میل کچیل کو دور کردیتا ہے اور خالص مال کو رکھ لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7211]
حدیث حاشیہ: اسلام پر بیعت کر کے اسے واپس لینےکا مطالبہ کرنا گویا اسلام سے پھر جانا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کا مطالبہ تسلیم نہ کیا۔ اس کی تفصیل حدیث: 7209۔ کے تحت گزر چکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7211
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7216
7216. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دیہاتی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: آپ مجھے اسلام پہ بیعت کرلیں، آپ نے اسے اسلام پر بیعت کرلیا۔ دوسرے دن بخار کی حالت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری بیعت واپس کرلیں۔ آپﷺ نے انکار فرمایا۔ جب وہ واپس ہوا تو آپ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے جو گندگی اور ناپاکی کو دور کردیتا ہے، خالص اور پاکیزہ کو رکھ لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7216]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بیعت توڑنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ اس سے بڑی غداری اور کوئی خیال نہیں کرتا کہ ایک آدمی اللہ کے نام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بیعت کرتا ہے پھر اس کے خلاف جنگ وقتال پر اُترآتا ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7111)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7322
7322. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کی اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ طیبہ میں اس کو بخت بخار نے آلیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت واپس لے لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کر دیا وہ پھر (تیسری مرتبہ) آیا اور کہا: میری بیعت توڑ دیں۔ تو آپ نے اس دفعہ بھی بیعت توڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ دیہاتی مدینہ طیبہ سے نکل گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو دور کرتی ہے اور خالص لوہے کو رکھ لیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7322]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس اعرابی کا خیال تھا کہ بیعت کے بعد مدینہ طیبہ میں اقامت ضروری ہے اگر بیعت نہ ہو تو مدینہ طیبہ سے باہر جا سکتا ہے، اس لیے وہ بیعت توڑنے کا بار بار اعادہ کر رہا تھا۔ وہ مرتد نہیں ہوا تھا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارتداد کا حکم جاری نہیں فرمایا، نیز اگر وہ مرتد ہوتا تو بار بار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے الفاظ استعمال نہ کرتا بلکہ وہ اسلام میں رہتے ہوئے مدینہ طیبہ سے رخصت چاہتا تھا اور بیعت سے واپسی کے الفاظ رخصت کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب مدینہ طیبہ تمام شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کا اجماع بھی قابل اعتبار ہوگا کیونکہ مدینہ طیبہ میں بُرے اور بدکار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے، اس لیے وہاں کے علماء سب اچھے ہوں گے لیکن مدینہ طیبہ کے متعلق یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ طیبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ہمارے رجحان کے مطابق خلاف شرع امور میں اہل حرمین کا اجماع کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے، کو اس کے قائل تعداد میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7322