عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مدینہ میں مر سکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہیں مرے کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی ایوب سختیانی کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں سبیعہ بنت حارث اسلمیہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3917]
وضاحت: ۱؎: یعنی مدینہ میں رہنے کے لیے اسباب اختیار کرے، اگر کامیابی ہو گئی تو «فبہا» ورنہ یہ کوئی فرض کام نہیں ہے، نیز مدینہ میں اسی مرنے والے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے، جس کی وفات صحیح ایمان و عقیدہ پر ہوئی ہو، نہ کہ مشرک اور بدعتی کی شفاعت بھی کریں گے، آپ نے فرمایا ہے: ”آخرت کے لیے اٹھا کر رکھی گئی میری دعا اس کو فائدہ پہنچائے گی جس نے اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہو گا (اس حدیث میں مدینہ کی ایک اہم فضیلت کا بیان ہے)“۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3917
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی مدینہ میں رہنے کے لیے اسباب اختیار کرے، اگر کامیابی ہو گئی تو (فبہا) ورنہ یہ کوئی فرض کام نہیں ہے، نیز مدینہ میں اسی مرنے والے کے لیے آپﷺ شفاعت فرمائیں گے، جس کی وفات صحیح ایمان و عقیدہ پر ہوئی ہو، نہ کہ مشرک اور بدعتی کی شفاعت بھی کریں گے، آپﷺ نے فرمایا ہے: آخرت کے لیے اٹھا کر رکھی گئی میری دعا اس کو فائدہ پہنچائے گی جس نے اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہو گا (اس حدیث میں مدینہ کی ایک اہم فضیلت کا بیان ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3917
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3112
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو مدینہ میں مر سکے تو وہ ایسا ہی کرے، کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے لیے گواہی دوں گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3112]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی خاص جگہ پر وفات پانا انسان کے بس میں نہیں لیکن وہ تمنا اور کوشش کرسکتا ہے۔ کہ زندگی کا آخری حصہ مدینے میں گزارے۔
(2) مدینے میں فوت ہونا باعث شرف ہے کیونکہ اس کے حق میں نبی اکرم ﷺ شفاعت کریں گے۔
(3) یہ شرف اس شخص کےلیے ہے جس کی موت ایمان کی حالت میں واقع ہوورنہ منافق اور مشرک کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت نہیں ملے گی اور ان کے حق میں کی گئی شفاعت قبول نہیں ہوگی جیسے عبداللہ بن ابی کے حق میں کی ہوئی شفاعت قبول نہیں ہوئی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3112