عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو“، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کر دیا، تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: قسم اللہ کی! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت، جب میں نے اسے سنا تو یہ بات مجھے بری لگی، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا: ”مجھے جانے دو کیونکہ موسیٰ کو تو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا پھر بھی انہوں نے صبر کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس سند میں ایک آدمی کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3896]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4860
´لگانے بجھانے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے، اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے) نکل کر تمہاری طرف آؤں، تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل کوئی میں کدورت نہ ہو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4860]
فوائد ومسائل: انسان کو جب کسی اپنے پرائے کی کو ئی غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان یا عمل سے خواہ اس کا اظہار نہ بھی کرے، مگر دل میں ضرور اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے بلا وجہِ معقول کسی کی غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے۔ ہاں اگر شرعی ضرورت ہو۔ مثلاَ کسی واسطے سے اس کی نصیحت اور اصلاح مقصود ہو یا کسی کو متنبہ رکھنا مقصود ہوتا جائز ہے۔ یا وہ ازحد فاسق، فاجر اور ظالم ہو۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے: (لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا) برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے۔ (النساء: 148) علمائے اخلاق لکھتے ہیں کہ جو آدمی آپکے سامنے دوسروں پر تبصرے کرتا اور ان کی باتیں نقل کرتا ہے، غالب گمان ہے کہ وہ آپ کے متعلق بھی دوسروں کے ہاں باتیں کرتا ہوگا، اس لیے ایسے آدمی کی اس عادت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہییے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4860