ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دو زانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء» دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ و ناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا، اور شیطان کے زیر اثر نہ آ پانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی، اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کر سکے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3474]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 49 (تحفة الأشراف: 11963) (حسن) (سند میں ”شہر بن حوشب“ ضعیف ہیں، لیکن ابوا ما مہ اور عبدالرحمن بن غنم کے شاہد سے تقویت پا کر حسن ہے، تراجع الالبانی 98) الصحیحة 114، صحیح الترغیب والترہیب 474، 475)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 166) // ضعيف الجامع الصغير (5738) //
من قال في دبر صلاة الفجر وهو ثان رجليه قبل أن يتكلم لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير عشر مرات كتب له عشر حسنات محيت عنه عشر سيئات رفع له عشر درجات كان يومه ذلك كله في حرز من كل مكروه حرس من الشيطان لم ينبغ
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 3474
تخریج الحدیث: [ترمذي: 3474 واسناده صحيح، عمل اليوم والليلة: 127] فوائد: اس حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بندہ اعمال کے کتنے ہی انبار کیوں نہ لگا دے، اگر اس کے اعمال میں شرک کی آمیزش ہوئی تو اس کے سارے اعمال ضائع و برباد ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ پیغمبروں کی ایک جماعت سے مخاطب ہو کر اعلان فرماتا ہے: « ﴿وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ »[الانعام: 88] اگر انہوں نے بھی شرک کیا ہوتا تو ان سب کے اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔
شرک اکبر الکبائر میں سے ہے اور شرک کا ارتکاب ظلم عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ »[لقمان: 13] ”بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے۔“
مشرک اگر توبہ کے بغیر مر جائے تو اس پر ہمیشہ کے لئے بخشش کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾ »[4-النساء:116] ”بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کو معاف نہیں کرتا اور اس کے سوا جسے وہ چاہے بخش دیتا ہے۔“
بلکہ مشرک پر ہمیشہ کے لئے جنت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: « ﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ »[5-المائدة:72] ”بےشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اس اللہ نے اس پر جنت کو حرام قرار دیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔“
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3474
اردو حاشہ: وضاحت: نوٹ: (سند میں ”شہر بن حوشب“ ضعیف ہیں، لیکن ابوا ما مہ اور عبدالرحمن بن غنم کے شاہد سے تقویت پاکر حسن ہے)(تراجع الألباني: 98)(الصحیحة: 114، صحیح الترغیب والترہیب: 474، 475)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3474