انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3371]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 165) (ضعیف) (سند میں ”ابن لھیعہ“ ضعیف ہیں، اس لیے مخ العبادة کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور ”الدعاء ھو العبادة“ کے لفظ سے نعمان بن بشیر رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، اور شرک ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ، الروض النضير (2 / 289) ، المشكاة (2231) // ضعيف الجامع الصغير (3003) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3371) إسناده ضعيف الوليد بن مسلم وابن لهيعة عنعنا (وليد بن مسلم مدلس تقدم:3291، ابن لهيعة تقدم:10)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3371
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، اور شرک ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں ہوگا۔
نوٹ:
(سند میں ”ابن لھیعہ“ ضعیف ہیں، اس لیے (مُخُّ الْعِبَادَۃ) کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور (الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَۃ) کے لفظ سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3371