عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جن آسمان کی طرف چڑھ کر وحی سننے جایا کرتے تھے، اور جب وہ ایک بات سن لیتے تو اس میں اور بڑھا لیتے، تو جو بات وہ سنتے وہ تو حق ہوتی لیکن جو بات وہ اس کے ساتھ بڑھا دیتے وہ باطل ہوتی، اور جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرما دیئے گئے تو انہیں
(جنوں کو) ان کی نشست گاہوں سے روک دیا گیا تو انہوں نے اس بات کا ذکر ابلیس سے کیا: اس سے پہلے انہیں تارے پھینک پھینک کر نہ مارا جاتا تھا، ابلیس نے کہا: زمین میں کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے جبھی ایسا ہوا ہے، اس نے پتا لگانے کے لیے اپنے لشکر کو بھیجا، انہیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم دو پہاڑوں کے درمیان کھڑے نماز پڑھتے ہوئے ملے۔ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا، وہ لوگ آپ سے ملے اور جا کر اسے بتایا، پھر اس نے کہا یہی وہ حادثہ ہے جو زمین پر ظہور پذیر ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3324]