الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
34. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ
34. باب: سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3221
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ "، فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا السِّتْرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ، وَإِمَّا أُدْرَةٌ، وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا، وَإِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام خَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى حَجَرٍ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ فَطَلَبَ الْحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا كَانُوا يَقُولُونَ، قَالَ: وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ وَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاهُ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہا تھے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے، جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی، پتھر کو بلانے اور کہنے لگے «ثوبي حجر ثوبي حجر» پتھر: میرا کپڑا دے، پتھر! میرا کپڑا دے اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ) کے پاس جا پہنچا، دوسروں نے انہیں (مادر زاد) ننگا اپنی خلقت و بناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا۔ اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اور خرابیوں سے پاک و صاف دکھا دیا جو عیب وہ ان میں بتا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ پتھر رک گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے، پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے۔ تو قسم اللہ کی پتھر پر لاٹھی کی مار سے تین، چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها» اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی، تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا، وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت و مرتبت والا تھا (الاحزاب: ۶۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3221]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 28 (3404)، وتفسیر سورة الأحزاب 11 (4799) (تحفة الأشراف: 12242، و12302، و14480) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاريكانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فخرج موسى في إثره يقول ثوبي يا حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى موسى فقالوا والله ما بموس
   صحيح البخاريموسى كان رجلا حييا وذلك قوله يأيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها
   صحيح البخاريموسى كان رجلا حييا ستيرا لا يرى من جلده شيء استحياء منه فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا ما يستتر هذا التستر إلا من عيب بجلده إما برص وإما أدرة وإما آفة وإن الله أراد أن يبرئه مما قالوا لموسى فخلا يوما وحده فوضع ثيابه على الحجر ثم اغتسل فلما فرغ أقبل إ
   صحيح مسلمكانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى سوأة بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمح موسى بإثره يقول ثوبي حجر ثوبي حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سوأة موسى قالوا
   صحيح مسلمكانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة ينظر بعضهم إلى سوأة بعض وكان موسى يغتسل وحده قالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة يغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمح موسى بأثره يقول ثوبي حجر ثوبي حجر حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سوأة موسى فقالوا
   جامع الترمذيموسى كان رجلا حييا ستيرا ما يرى من جلده شيء استحياء منه فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا ما يستتر هذا الستر إلا من عيب بجلده إما برص وإما أدرة وإما آفة وإن الله أراد أن يبرئه مما قالوا وإن موسى خلا يوما وحده فوضع ثيابه على حجر ثم اغتسل فلما فرغ أقبل إل

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3221 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3221  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی،
تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا،
وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت ومرتبت والا تھاؔ (الأحزاب: 69)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3221   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´پتھر کا موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسَى فِي إِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا"، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالْحَجَرِ سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ ضَرْبًا بِالْحَجَرِ.»
۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 278]
تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے۔ [ح 278، 3404، 4799]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے:
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم ح339 وترقيم دارالسلام: 770 وبعد ح 2371 ترقيم دارالسلام: 6146، 6147]
ترمذي [السنن: 3221 وقال: هذا حديث حسن صحيح إلخ]
النسائي فى التفسير [444، 445]
الطحاوي فى مشكل الآثار [1؍11]
والطبري فى تفسيره [تفسير ابن جرير 22؍37]
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند ابي عوانه [281/1]
صحيح ابن حبان [الاحسان 94/14 ح 6178، دوسرا نسخه: 6211]
الاوسط لابن المنذر [120/2 ح649]
السنن الكبريٰ للبيهقي [198/1]
معالم التنزيل للبغوي [545/3]
یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے بھی بیان کی ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍315، 392، 514، 535]
عبدالرزاق [المصنف: 20531]
همام بن منبہ [الصحيفة: 61]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل جلیل القدر تابعین کی سند سے مروی ہے:
① ہمام بن منبہ [الصحيفة: 61 وصحيح البخاري: 278 وصحيح مسلم: 339]
② محمد بن سیرین [صحيح البخاري: 3404، 4799]
③ خلاس بن عمرو [صحيح البخاري: 3404، 4799]
④ الحسن البصری [صحيح البخاري: 3404، 4799]
⑤ عبداللہ بن شقیق [صحيح مسلم: 339 بعد ح2371 ترقيم دارالسلام: 6147]
اس روایت کی دوسری سندیں، آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین بھی مروی ہیں دیکھئیے:
مصنف ابن ابی شیبہ [11؍533، 535]
وتفسیر الطبری [22؍36، 37]
وكشف الاستار [مسند البزار: 2252]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی یہ روایت بالکل صحیح ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انه ليس فى الحديث انهم رأوا من موسي الذكر - الذى هو عورة - و ان رأوا منه هيئة تبينوا بها أنه مبرأ مما قالوا من الادرة وهذا يتبين لكل ناظر بلا شك، بغير أن يرى شيئًا من الذكر لكن بأن يرى مابين الفخذين خاليًا»
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ انہوں (بنی اسرائیل) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر یعنی شرمگاہ دیکھی تھی۔ انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے الزمات کہ وہ آدر ہیں (یعنی ان کے خصیے بہت موٹے ہیں) سے بری ہیں۔ ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے ذَکر (شرمگاہ) دیکھے بغیر ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ رانوں کے درمیان جگہ خالی ہے۔ [المحليٰ 3؍213 مسئله: 349]
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر جو جسمانی نقص والے الزامات لگاتے تھے، ان تمام الزامات سے آپ بری تھے۔ دوسرے یہ کہ اس روایت میں یہ بھی نہیں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بالکل ننگے نہا رہے تھے۔ امام ابن حزم کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے لنگوٹی وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کو چھپا رکھا تھا اور باقی جسم ننگا تھا۔
بنی اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھا ہی نہیں لہٰذا منکرین حدیث کا اس حدیث کا مذاق اڑانا مردود ہے۔
بعض الناس نے کہا کہ تو تین یا چار نشان کہنے کا کیا مطلب؟
عرض ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ» اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ۔ [الصّٰفّٰت: 147 ترجمه شاه عبدالقادر ص543]
اس آیت کریمہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ الدہلوی کی تحریر سے پڑھ لیں:
«وفرستاديم اُو را بسوئے صد هزار يا بيشتر ازان باشند» [ص543]
منکرین حدیث اس آیت کریمہ میں لفظ او کی جو تشریح کریں گے وہی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول «ستة أو سبعة» میں «او» کی ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: 278]
تخريج الحديث:
[194۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 20 باب من اغتسل عريانًا وحده فى الخلوة 278، مسلم 339]
لغوی توضیح:
«آدَرُ» بڑے بڑے خصیتین والا۔
«فِيْ اِثْرِهِ» اس کے پیچھے۔
«نَدَبٌ» نشان۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 770  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: بنو اسرائیل برہنہ نہاتے تھے، ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھ رہے ہوتے، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اکیلے نہاتے، اسرائیلی کنے لگے، اللہ کی قسم! موسیٰ عَلیہِ السَّلام ہمارے ساتھ محض اس بنا پر نہیں نہاتے کہ ان کو ہرنیا کی بیماری ہے، آپﷺ نے فرمایا: موسیٰ عَلیہِ السَّلام ایک دفعہ نہانے لگے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے پتھر آپﷺ کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، اور موسیٰ عَلیہِ السَّلام اس کے پیچھے (سرپٹ) زور سے دوڑ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:770]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سَوءَة:
شرم گاہ۔
آدر:
جس کے خصیتین پھولے ہوں۔
(2)
جَمَحَ:
سرپٹ دوڑا۔
(3)
ندب:
نشان۔
فوائد ومسائل:
(1)
انسان تنہائی میں برہنہ ہو کر غسل کر سکتا ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کپڑا باندھ کر نہائے کیونکہ کوئی اچانک آ سکتا ہے اگر غسل خانہ وغیرہ ہو جہاں کسی کے آنے کا خطرہ نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔
(2)
انبیا علیہ السلام اپنی سیرت اور صورت دونوں اعتبار سے کامل ترین فرد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو عیوب و نقائص سے پاک رکھتا ہے انبیاء علیہ السلام بشر ہونے کی بنا پر انسانی جذبات سے متصف ہوتے ہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں آ کر پتھر پر ضربیں لگائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی عزت و آبرو کی براءت کی خاطر پتھر میں خود بخود دوڑنے کی اہلیت پیدا کر دی جیسا کہ اس کے حکم سے زمین،
اپنے محور پر حرکت کر رہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 770   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6146  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمام بن منبہ کے سنائی ہوئی احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسرئیلی ننگے نہاتے تھے اور ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھتے رہتے او رحضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے الگ تھلگ غسل کرتے تھے تو وہ کنے لگے، اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کو ہمارے ساتھ نہانے سے صرف یہ چیز روکتی ہے کہ ان کے خصے پھولے ہوئے ہیں، ایک دن وہ نہانے لگے، تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6146]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
آدر:
دونوں خصیوں کا سورج جانا۔
(2)
جمح موسيٰ:
موسیٰ علیہ السلام سرپٹ دوڑے۔
(3)
ندب:
زخم کے نشان کو کہتے ہیں،
یہاں مراد،
مار کا نشان ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جس طرح انبیاء کی سیرت و کردار صاف ستھرا ہوتا ہے،
اس طرح ان کا جسم بھی عیوب و نقائص سے پاک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی برکت کے اظہار کے لیے پتھر کو ایک جاندار کی طرح دوڑایا اور اس میں یہ شعور اور تمیز پیدا کی کہ وہ بنو اسرائیل کو پہچان کر ان کے پاس رک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں آ کر اس کو مارا تو پتھر پر مار کے نشان ثبت ہو گئے اور یہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا،
اس لیے حَجر پتھر کو حِجر (گھوڑی)
قرار دینا تحریف ہے اور معجزات کے انکار کا شاخسانہ ہے،
اگر وہ گھوڑی ہوتی تو انسانوں کی طرف نہ جاتی اور اس میں مار کا نشان پڑنا بھی کوئی عجوبہ نہیں،
جبکہ حضرت ابو ہریرہ ایک عجیب واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6146   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3404  
3404. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3404]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔
باب سے یہی مناسبت ہے۔
قرآن پاک کی آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى﴾ (الأحزاب: 69)
میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3404   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4799  
4799. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ موسٰی ؑ بڑے باحیا انسان تھے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے حضرت موسٰی ؑ کو ایذا پہنچائی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کو (باعزت) بری کر دیا اس (الزام) سے جو انہوں نے لگایا تھا۔ اور اللہ تعالٰی کے ہاں وہ بڑے معزز تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4799]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
بعض کم عقلوں نے یہ مشہورکر رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام جو اس قدر حیا کرتے ہیں اور ستر چھپاتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ ان کے جسم میں عیب ہے۔
اللہ پاک نے ایک دن جبکہ آپ ایک پتھر پر کپڑوں کو رکھ کر غسل فرما رہے تھے اس پتھر کو حکم دیا وہ آپ کے کپڑے لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام اسی کے پیچھے اپنے کپڑوں کے لئے بھاگے یہاں تک کہ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اندرونی جسم دیکھا اوران کو آپ کے بے عیب ہونے کا یقین ہو گیا۔
اسی طرف آیت میں اشارہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4799   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:278  
278. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہو کر غسل کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، جبکہ موسی ؑ تنہا نہاتے۔ بنی اسرائیل نے کہا: اللہ کی قسم! موسی ؑ ہمارے ساتھ اس لیے غسل نہیں کرتے کہ وہ مرض فتق میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسی ؑ نے نہاتے وقت اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے۔ ہوا یوں کہ وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ حضرت موسیٰ ؑ اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے! اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دے دے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ ؑ کو دیکھ لیا اور کہنے لگے: واللہ! موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنے لگے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! موسیٰ ؑ کی مار کے چھ یا سات نشان اس پتھر پر اب بھی موجود ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:278]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
تم میں سے جب کوئی غسل کرے تواسے چاہیے کہ چھپ کرنہائے۔
(سنن أبي داود، الحمام، حدیث: 4012)
اس حدیث کے پیش نظر محدث ابن ابی لیلیٰ ؒ کا موقف ہے کی خلوت میں ننگے نہانا جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں اس عنوان کو قائم کیا ہے کہ خلوت میں ننگے نہانا جائز ہے، البتہ ستر چھپا کر غسل کرنا بہتر ہے، کیونکہ خلوت میں اگرچہ کسی انسان کی موجودگی نہیں جس سے شرم آئے، مگر اللہ تعالیٰ سے شرم ہونی چاہیے۔
جب انسانوں سے حیا کے پیش نظر ننگا نہانا درست نہیں تو اللہ تعالیٰ سے تو بدرجہ اولیٰ شرمانا چاہیے۔
اس کے لیے امام بخاری ؒ نےحضرت بہز بن حکیم ؓ کی روایت کا حوالہ دیا ہے، ان کے دادا حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں ستر کھولنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2769)
اب سوال پیداہوتا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظرتو خلوت میں بھی ننگے نہانے کا جواز نہیں تو امام بخاری ؒ نے ننگے نہانے کے موقف کو کیوں اپنا یا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس کے جواز کے لیے دو واقعات بیان فرمائے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ خلوت میں ننگے ہوکرنہائے تھے، اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے بھی برہنہ غسل فرمایا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سابقہ انبیاء علیہم السلام کے عمل کو نقل فرمایا اور اس پر کسی قسم کا انکار نہیں فرمایا۔
اگر ہماری شریعت میں کوئی مختلف حکم ہوتا تو آپ اس پر ضرور تنبیہ فرمادیتے، اس لیے یہ سکوت، محل بیان کا سکوت ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ برہنہ غسل میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
﴿ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ ﴾ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت یاب بنایاہے لہذا آپ ان کی اقتدا کریں۔
(الأنعام 90/6)
اس لیے ان جلیل القدرانبیاء علیہم السلام کا عمل قابل اقتدا اور لائق اتباع ہے۔
(فتح الباري: 501/1)

کھلی فضا یا ایسے وسیع مکان میں جہاں لوگوں کے آنے کا احتمال نہ ہو، برہنہ غسل کرنا معصیت نہیں بلکہ صرف جائز ہے۔
بعض انتہاپسند حضرات غسل خانے میں بھی تہ بند باندھ کر غسل کرتے ہیں۔
ہماےنزدیک یہ بے جا تشدد ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں، کیونکہ غسل خانہ خود ایک تستر(پردے)
کی صورت ہے۔

ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نافرمان تھے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے ننگے نہاتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے وادی تیہ میں قیام کے دوران میں پیش آیا جہاں عورتیں اورمکانات نہ تھے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شریعت میں ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہو کر نہانا جائز تھا۔
اگرآپ کی نافرمانی کرتے ہوئے ایسا کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان کو روکنا ضرور منقول ہوتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ہاں ایسا کرنا افضل تھا۔
(فتح الباري: 501/1)

موسیٰ علیہ السلام کے اس قصے سے معلوم ہوا کہ علاج یا عیب سے براءت کے پیش نظر دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے، مثلاً:
زوجین میں سے کوئی دوسرے کے متعلق فسخ نکاح کے لیے برص کا دعویٰ کرے تو اس کی تحقیق کے لیے دیکھنا درست ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی خلقت واخلاق کے لحاظ سے انتہائی کامل ہوتے ہیں اور جو کوئی ان کی طرف کسی نقص خلقی یا عیب خلقی منسوب کرے گا وہ انھیں ایذا دینے والوں میں سے ہوگا اور اس کے ارتکاب پر کفر کااندیشہ ہے۔
(فتح الباري: 532/6)

ابن بطال نے لکھا ہے کہ واقعہ ایوب سے عریاں ہوکر غسل کرنے کا جواز معلوم ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو سونے کی ٹڈیاں جمع کرنے پر ملامت کی، مگرعریاں غسل کرنے پر کوئی عتاب نہیں فرمایا۔
(شرح ابن بطال: 393/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 278   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3404  
3404. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3404]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت برہنہ چلنا جائز ہے نیز علاج کے لیے یا آپریشن کے وقت مریض کو برہنہ دیکھاجائز ہے اور حضرات انبیاء ؑ ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک ہوتے ہیں اور جو کوئی کسی نبی کی خلقت میں عیب لگائے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔
ایسے کام کرنا نبی کو اذیت پہچانا ہے اور اذیت رسانی حرام ہے۔
واللہ أعلم۔

جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکرہیں انھیں مذکورہ بالا تفسیر راس نہیں آسکتی تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے مان لیں کیونکہ عربی زبان میں حجر کے معنی گھوڑی کے بھی ہیں۔
اعتبار سے واقعہ یوں ہو گا کہ حضرت موسیٰ ؑ گھوڑی پر سوار تھے کسی تنہائی کے مقام پرنہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پراپنے کپڑے رکھ دیے۔
جب فراغت کے بعد اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ ؑ اس کے پیچھے ثوبی حجر ثوبی حجر کہتے ہوئے دوڑپڑے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھا لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔
اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3404   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4799  
4799. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ موسٰی ؑ بڑے باحیا انسان تھے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے حضرت موسٰی ؑ کو ایذا پہنچائی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کو (باعزت) بری کر دیا اس (الزام) سے جو انہوں نے لگایا تھا۔ اور اللہ تعالٰی کے ہاں وہ بڑے معزز تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4799]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری حدیث میں اس واقعے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بنی اسرائیل ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرتے تھے۔
وہ نہایت ہی باحیا تھے۔
انھوں نے اپنا جسم کبھی لوگوں کے سامنےننگا نہیں کیا تھا۔
بنی اسرائیل کہنے لگے:
شاید موسیٰ علیہ السلام کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا کوئی اورعیب ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہائی میں غسل کرنے لگے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے پتھر (اللہ کے حکم سے)
کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے حتی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے۔
انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو ان کے تمام شکوک وشبہات دور ہوگئے۔
موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے اس الزام کو ختم کردیا جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر لگایا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3404)

بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح تکلیف دینا اس لحاظ سے مزید سنگین جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور وہ مصر میں بڑی بدترین زندگی گزاررہے تھے، بہرحال اس آیت کا روئے سخن منافقین کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔
مخلص اہل ایمان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب اور محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ یا تکلیف پہنچائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4799