ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹے، رات کا سفر اختیار کیا، چلتے چلتے آپ کو نیند آنے لگی
(مجبور ہو کر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا، بلال رضی الله عنہ سے فرمایا:
”بلال! آج رات تم ہماری حفاظت و پہرہ داری کرو
“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: بلال نے
(جاگنے کی صورت یہ کی کہ) نماز پڑھی، صبح ہونے کو تھی، طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی
(ذرا سی) ٹیک لے لی، تو ان کی آنکھ لگ گئی، اور وہ سو گئے، پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا، ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، آپ نے فرمایا:
”بلال!
(یہ کیا ہوا؟)“ بلال نے عرض کیا: میرے باپ آپ پر قربان، مجھے بھی اسی چیز نے اپنی گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، آپ نے فرمایا:
”یہاں سے اونٹوں کو آگے کھینچ کر لے چلو، پھر آپ
( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اونٹ بٹھائے، وضو کیا، نماز کھڑی کی اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی آپ اطمینان سے اپنے وقت پر پڑھی جانے والی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ نے آیت
«أقم الصلاة لذكري» ”مجھے یاد کرنے کے لیے نماز پڑھو
“ (طہٰ: ۱۴)، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، اسے کئی حافظان حدیث نے زہری سے، زہری نے سعید بن مسیب سے اور سعید بن مسیب نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے،
۲- صالح بن ابی الاخضر حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں۔ انہیں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے حفظ کے تعلق سے ضعیف کہا۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3163]