ابورافع، ابوہریرہ رضی الله عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث میں سے «سد»(سکندری) سے متعلق حصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یاجوج و ماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہر دن کھودتے ہیں، جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں (جو ان سے کام کرا رہا ہوتا ہے) ان سے کہتا ہے: واپس چلو کل ہم اس میں سوراخ کر دیں گے، ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط و ٹھوس بنا دیتا ہے، پھر جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ ان کو لوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا، اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا: لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاءاللہ توڑ دیں گے“، آپ نے فرمایا: ”پھر جب وہ (اگلے روز) لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے ۱؎، پھر وہ اسے توڑ دیں گے، اور لوگوں پر نکل پڑیں گے (ٹوٹ پڑیں گے) سارا پانی پی جائیں گے، لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھیکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آ گئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت و بلندی میں بڑھ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس سے وہ مر جائیں گے“، آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے ایسے ہی جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3153]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الفتن 33 (4080) (تحفة الأشراف: 14670)، و مسند احمد (2/510-511) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے اس لیے کہ قتادہ کا سماع ابو رافع سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم: 1735)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس نے اس بار «إن شاء اللہ» کہا ہو گا، پہلے وہ ایسا کہنا بھول جایا کرے گا کیونکہ اللہ کی یہی مصلحت ہو گی۔
۲؎: مؤلف یہ حدیث ارشاد باری: «إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض»(الکہف: ۹۴) کی تفسیر میں لائے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4080)
قال الشيخ زبير على زئي: (3153) إسناده ضعيف / جه 4080 قتادة عنعن (تقدم: 30) في الروايات الثابتة عنه و صرح بالسماع فى رواية سعيد بن أبى عروبة (أحمد 511.510/2 و ابن ماجه: 4080) ولكن سعيد بن أبى عروبة مدلس وعنعن (تقدم:30) وصرح بالسماع فى رواية سليمان التيمي (الإحسان:6829/6790) ولكن سليمان التيمي مدلس وعنعن (تقدم:2035) وروي العقيلي فى الضعفاء (285/2ت 855) عن أبى ھريرة رضى الله عنه موقوفاً: ”يا جوج وما جوج يحفرون كل يوم السد .“ فذكر الحديث مثله . وسنده حسن موقوف ولعله مأخوز عن كعب الأحبار رحمه الله . والله أعلم
يحفرونه كل يوم حتى إذا كادوا يخرقونه قال الذي عليهم ارجعوا فستخرقونه غدا فيعيده الله كأمثل ما كان حتى إذا بلغ مدتهم وأراد الله أن يبعثهم على الناس قال الذي عليهم ارجعوا فستخرقونه غدا إن شاء الله واستثنى قال فيرجعون فيجدونه كهيئته حين تركوه فيخرقونه فيخرجو
يحفرون كل يوم حتى إذا كادوا يرون شعاع الشمس قال الذي عليهم ارجعوا فسنحفره غدا فيعيده الله أشد ما كان حتى إذا بلغت مدتهم وأراد الله أن يبعثهم على الناس حفروا حتى إذا كادوا يرون شعاع الشمس قال الذي عليهم ارجعوا فستحفرونه غدا إن شاء الله تع
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4080
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہو گا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4080]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کھودنے کا مطلب یہ ہے کہ دیوار میں سوراخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی انھین کامیاب نہیں ہونے دیتا اس لیے دیوار دوبارہ موٹی ہوجاتی ہے۔
(2) تمام اسباب اللہ کے تصرف میں ہیں۔ اس کی مرضی کے بغیر اسباب پر محنت کے باوجود کامیابی نہیں ہوتی اس لیے مومن کا توکل اللہ پر ہونا چاہیے، (3) اللہ کے نام میں اتنی برکت ہے کہ وہ کافر (یاجوج ماجوج) بھی اللہ کا نام لیں گے تو دیوار دوبارہ موٹی نہیں ہوگی اور وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4080