ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف باپ کے (یعنی) یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ۱؎ کی عظمت اور نجابت و شرافت کا یہ حال تھا کہ جتنے دنوں یوسف علیہ السلام جیل خانے میں رہے ۲؎ اگر میں قید خانے میں رہتا، پھر (بادشاہ کا) قاصد مجھے بلانے آتا تو میں اس کی پکار پر فوراً جا حاضر ہوتا، یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کی طلبی کو قبول نہ کیا بلکہ کہا جاؤ پہلے بادشاہ سے پوچھو! ان ”محترمات“ کا اب کیا معاملہ ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ لیے تھے۔ پھر آپ نے آیت: «فلما جاءه الرسول قال ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن»۳؎ کی تلاوت فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ رحم فرمائے لوط علیہ السلام پر جب کہ انہوں نے مجبور ہو کر تمنا کی تھی: اے کاش میرے پاس طاقت ہوتی، یا کوئی مضبوط سہارا مل جاتا۔ جب کہ انہوں نے کہا: «لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد»۴؎۔ آپ نے فرمایا: ”لوط علیہ السلام کے بعد تو اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے انہیں ان کی قوم کے اعلیٰ نسب چیدہ لوگوں اور بلند مقام والوں ہی میں سے بھیجے“۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3116]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مسند احمد (2/332، 384) (تحفة الأشراف: 15081) (حسن) (”ذروة“ کے بجائے ”ثروة“ کے لفظ سے یہ حسن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جن کی چار پشت میں نبوت و شرافت مسلسل چلی آئی۔
۲؎: بقول عکرمہ سات سال اور بقول کلبی پانچ برس۔
۳؎: ”جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟“(یوسف: ۵۰)۔
۴؎: ”کاش میرے پاس قوت ہوتی (کہ میں طاقت کے ذریعہ تمہیں ناروا فعل سے روک دیتا) یا یہ کہ مجھے (قبیلہ یا خاندان کا) مضبوط سہارا حاصل ہوتا“(ہود: ۸۰)۔
قال الشيخ الألباني: حسن - باللفظ الآتى: " ثروة " -، الصحيحة (1617 و 1867)
الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم ولو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاءني الرسول أجبت ثم قرأ فلما جاءه الرسول قال ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3116
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی جن کی چار پشت میں نبوت و شرافت مسلسل چلی آئی۔
2؎: بقول عکرمہ سات سال اور بقول کلبی پانچ برس۔
3؎: جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ (یوسف: 50)
4؎: کاش میرے پاس قوت ہوتی (کہ میں طاقت کے ذریعہ تمہیں ناروا فعل سے روک دیتا) یا یہ کہ مجھے (قبیلہ یا خاندان کا) مضبوط سہارا حاصل ہوتا (هود: 80)
نوٹ: ((ذروة) کے بجائے (ثروة) کے لفظ سے یہ حسن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3116
فضل بن موسیٰ کی حدیث کی طرح ہی حدیث روایت ہے، مگر (ان کی حدیث میں ذرا سا فرق یہ ہے کہ) انہوں نے کہا: «ما بعث الله بعده نبيا إلا في ثروة من قومه»(اس حدیث میں «ذر وہ» کی جگہ «ثروه» ہے، اور «ثروة» کے معنی ہیں: زیادہ تعداد)۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں: «ثروه» کے معنی کثرت اور شان و شوکت کے ہیں۔ یہ فضل بن موسیٰ کی روایت سے زیادہ اصح ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3116M]