معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسے شخص کے بارے میں مجھے بتائیے جو ایک ایسی عورت سے ملا جن دونوں کا آپس میں جان پہچان، رشتہ و ناطہٰ
(نکاح) نہیں ہے اور اس نے اس عورت کے ساتھ سوائے جماع کے وہ سب کچھ
(بوس و کنار چوما چاٹی وغیرہ) کیا جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے؟،
(اس پر) اللہ تعالیٰ نے آیت:
«وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» ناز فرمائی، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے یا سبھی مومنین کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا:
”نہیں، بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے عام ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،
(اس لیے کہ) عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ سے نہیں سنا ہے، اور معاذ بن جبل رضی الله عنہ کا انتقال عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوا تھا، اور عمر رضی الله عنہ جب شہید کیے گئے تو اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے چھوٹے بچے تھے۔ حالانکہ انہوں نے عمر سے
(مرسلاً) روایت کی ہے
(جبکہ صرف) انہیں دیکھا ہے،
۲- شعبہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3113]