ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیت «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں (قباء میں) وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے“(التوبہ: ۱۰۸)، اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجاء پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب، انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3100]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 93
´طہارت کے لیے پانی کا استعمال` «. . . وعن ابن عباس رضي الله عنهما ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم سال اهل قباء فقال: إن الله يثني عليكم فقالوا: إنا نتبع الحجارة الماء . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قباء سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری (پاکیزگی کے بارے میں) بڑی تعریف فرمائی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم ڈھیلوں کے استعمال کے بعد مزید طہارت کے لیے پانی بھی استعمال کرتے ہیں . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 93]
� لغوی تشریح: «أَهْلَ قُبَآءٍ» «سَأَلَ» فعل کا مفعول ہے اور «قُبَاء»”قاف“ کے ضمہ اور آخر میں الف ممدودہ اور ”با“ کی تخفیف کے ساتھ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مذکر ہے اور منصرف ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مؤنث غیر منصرف ہے۔ مدینہ کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک مشہور مقام کا نام ہے۔ «يُثْنِي عَلَيْكُمْ» یعنی اللہ رب العزت نے اپنے اس قول کے ساتھ تمہاری تعریف کی ہے: «فِيْهِ رِجَالٌ يُحِبُّوْنَ أَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ»[التوبة 9: 108]”ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو طہارت کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ «نُتْبِعُ الْحِجَارَةَ الْمَاءَ» یعنی پہلے ہم پتھروں سے استنجا کرتے ہیں، پھر اس کے بعد پانی سے صفائی کرتے ہیں اور «نُتْبِعُ» باب افعال سے ہے۔ «اَلْحِجَارَةَ» اس کا مفعول اوّل ہے اور «اَلْمَاءَ» مفعول ثانی ہے۔ «بِسَنَدٍ ضَعِيْفٍ» یہ اس لیے ضعیف ہے کہ امام زہری سے محمد بن عبدالعزیز نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسی طرح اس سند میں عبداللہ بن شبیب بھی ضعیف راوی ہے، تاہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ جس میں صرف پانی سے استنجاء کرنے کا ذکر ہے، وہ صحیح ہے، اس لیے ترجمۃ الباب کے تحت مذکور روایت پتھروں کے ذکر کے سوا اس روایت کی تائید کی بنا پر حسن بن جاتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 93
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 44
´پانی سے استنجاء کرنے کا بیان` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي أَهْلِ قُبَاءٍ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فيه رجال يحبون أن يتطهروا» اہل قباء کی شان میں نازل ہوئی ہے، وہ لوگ پانی سے استنجاء کرتے تھے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 44]
فوائد و مسائل: ➊ پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے۔ ڈھیلے اور پانی دونوں کو جمع کرنا اور زیادہ افضل ہے۔ ➋ نوعمر بچوں سے خدمت لی جا سکتی ہے۔ ➌ طہارت اللہ کو بہت پسند ہے اور طاہر لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ ➍ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لے ظاہر ی و باطنی طہارت کا التزام کرنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 44
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث357
´پانی سے استنجاء کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت کریمہ اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی: «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“(سورة التوبة: 108)، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 357]
اردو حاشہ: صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تو نبی ﷺ نے مسجد نبوی کو اس آیت کے مصداق قرار دیا ہے: دیکھیے: (صحیح مسلم، الحج، باب بیان ان المسجد الذی اسس علی التقوی ھو مسجد النبی ﷺ بالمدینہ، حدیث: 1398) تاہم مسجد قباء کی بنیاد بھی خود رسول اللہ ﷺ نے رکھی ہے اس لیے اسے بھی تقوٰی کی بنیاد پر تعمیر شدہ ﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰي﴾ پاک لوگوں کی مسجد قرار دیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 357