ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت:
«من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون الله وليا ولا نصيرا» نازل ہوئی تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
”ابوبکر! کیا میں تمہیں ایک آیت جو
(ابھی) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں؟
“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو آپ نے مجھے
(مذکورہ آیت) پڑھائی۔ میں نہیں جانتا کیا بات تھی، مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ابوبکر کیا حال ہے!
“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہو گا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”(گھبراؤ نہیں) ابوبکر تم اور سارے مومن لوگ یہ
(چھوٹی موٹی) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا، البتہ دوسروں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند میں کلام ہے،
۲- موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔ اور مولی بن سباع مجہول ہیں،
۳- اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے، لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے،
۴- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3039]