دارمی والی روایت
(حدیث نمبر 94) کی حیثیت تو واضح کی جا چکی ہے،
اب ترمذی والی روایت بھی ملاحظہ ہو:
◈ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف یہ قول منسوب ہے:
«ضرب بعض أصحاب النبى صلى اللہ عليه وسلم خبائ ه علٰي قبر، وهو لا يحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ سورة ﴿تبارك الذى بيده الملك﴾ حتٰي ختمها، فأتي النبى صلى اللہ عليه وسلم، فقال: يا رسول اللہ! إني ضربت خبائي علٰي قبر، وأنا لا أحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ سورة تبارك الملك، حتٰي ختمها، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: هي المانعة، هي المنجية، تنجيه من عذاب القبر .»
” ایک صحابی نے انجانے میں کسی قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا۔ اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قرأت کر رہا تھا۔ اس نے مکمل سورت پڑھی۔ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے انجانے میں ایک قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا تو اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قرأت کر رہا تھا، اس نے پوری سورت پڑھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۂ ملک اپنے پڑھنے والے سے عذاب کو روکتی ہے اور اسے عذاب ِ قبر سے نجات دیتی ہے۔“
تبصرہ: اس کی سند سخت ترین
” ضعیف
“ ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی یحییٰ بن عمرو بن مالک نکری
” ضعیف
“ ہے۔ اس کے بارے میں:
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كان منكر الرواية عن أبيه .»
” یہ اپنے والد سے منکر روایات بیان کرتا تھا۔
“ [المجروحين: 114/3]
مذکورہ بالا روایت بھی یحییٰ بن عمرو اپنے والد ہی سے بیان کر رہا ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہوئی۔ اس راوی کو امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابوزرعہ رازی، امام نسائی، امام دارقطنی
[كتاب الضعفاء والمتروكين: 850] وغیرہم نے بھی
” ضعیف
“ قرار دیا ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں
«صويلح يعتبر به» کہنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے
” ضعیف
“ ہی قرار دیا ہے۔
[تقريب التهذيب: 7614]
➋ یحییٰ بن عمرو کے والد عمرو بن مالک نکری
(حسن الحدیث) یہ روایت ابوالجوزاء سے بیان کرتے ہیں اور ان کی ابوالجوزاء سے روایت
” غیر محفوظ
“ ہوتی ہے۔
[تهذيب التهذيب لابن حجر: 336/1]
یہ تھی کشمیری صاحب کی دلیل جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ کسی غیر ثابت روایت کو اپنا عقیدہ بنا لینا کیسے جائز ہے؟ کھوٹے سکے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ دین و عقیدہ کی بنیاد صرف صحیح احادیث بنتی ہیں۔
الحاصل: واقعہ حرہ کے وقت قبر نبوی سے اذان سنائی دینا ثابت نہیں اس بارے میں کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ لہٰذا اس قصے کو بیان کرنا اور اس سے مسائل کا استنباط کرنا دین اسلام کے ساتھ خیر خواہی پر مبنی نہیں۔
نوٹ: اس موضوع پر مفصل تحریر سنن دارمی حدیث نمبر 94 پر دیکھی جا سکتی ہے۔