انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف کے بال لینے، اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرما دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- صدقہ بن موسیٰ (جو پہلی حدیث کی سند میں) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2759]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ چالیس دن سے اوپر نہ ہو، یہ مطلب نہیں ہے کہ چالیس دن کے اندر جائز نہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 14
´ان چیزوں کو چھوڑے رکھنے کی مدت کی تحدید۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھ کترنے، ناخن تراشنے، زیر ناف کے بال صاف کرنے، اور بغل کے بال اکھیڑنے کی مدت ہمارے لیے مقرر فرما دی ہے کہ ان چیزوں کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎، راوی نے دوسری بار «أربعين يومًا» کے بجائے «أربعين ليلة» کے الفاظ کی روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 14]
14۔ اردو حاشیہ: ➊ دن اور رات ایک دوسرے کو لازم ہیں، لہٰذا دن کہا جائے یا رات، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ➋ چالیس دن آخری حد ہے، ورنہ جب بھی ضرورت محسوس ہو، یعنی طبیعت کو گھن آئے یا گندگی اور میل کچیل جمع ہونے لگے، تو صفائی کی جا سکتی ہے، بال ہوں یا ناخن۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 14
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث295
´امور فطرت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے مونچھوں کے تراشنے، موئے زیر ناف مونڈنے، بغل کے بال اکھیڑنے، اور ناخن تراشنے کے بارے میں وقت کی تعیین کر دی گئی ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 295]
اردو حاشہ: فائدہ: جب بھی ضرورت محسوس ہویہ اعمال انجام دے لینے چاہییں لیکن اگر دیر بھی ہوجائے تو چالیس دن سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے وگرنہ گناہ گار ہوگا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ چالیس دن سے پہلے صفائی ہی نہ کی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 295