جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا: ”کون ہے؟“۔ میں نے کہا: میں ہوں، آپ نے فرمایا: ”میں میں (کیا ہے؟)“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2711]
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو ”میں“ کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2711
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو ” میں“ کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2711
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5187
´دستک دے کر اجازت لینا۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے قرضے کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: ”میں ہوں“ آپ نے فرمایا: ”میں، میں“(کیا؟) گویا کہ آپ نے (اس طرح غیر واضح جواب دینے) کو برا جانا۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5187]
فوائد ومسائل: 1۔ دروازہ کھٹکھٹانا بھی اجازت طلب کرنے کے معنٰی میں ہے اور صحیح ہے اور پھر کسی کے سامنے آنے پر السلام علیکم کہے۔
2۔ دستک کے جواب میں دستک دینے والے آدمی کو اپنا نام یا عرف بتانا چاہیے”میں میں“ کہنا خلاف ادب ہے اور ناکافی تعارف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5187
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3709
´(گھر کے اندر داخل ہونے کے لیے) اجازت لینے کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا: ”کون ہو“؟ میں نے عرض کیا: ”میں“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں، میں کیا؟ (نام لو)۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3709]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) اجازت طلب کرنے والے سے پوچھا جائےکون ہے؟ تو جواب میں اپنا نام یا لقب اور کنیت وغیرہ (جو چیز زیادہ معروف ہو) بتانا چاہیے۔
(2) نبی ﷺ کا میں میں فرمانا صحابی کے جواب پر ناپسندیدگی کا اظہار تھا یعنی یہ طریقہ درست نہیں۔
(3) دروازہ کھٹکھٹانا یا گھنٹی بجانا بھی اجازت طلب کرنے کے مفہوم میں داخل ہے۔ جب کوئی دروازے پر آ کر نام پوچھے تو سلام کر کے گفتگو کی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3709
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5635
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور آواز دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کون ہو؟“ میں نے کہا، میں ہوں تو آپﷺ یہ فرماتے ہوئے نکلے ”میں ہوں، میں ہوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5635]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جب کوئی شخص اجازت طلب کرے اور اہل خانہ پوچھیں، تم کون ہو؟ تو جواب میں، میں ہوں، نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ آواز نہ پہچاننے کی بنا پر تو سوال ہوا تھا اور میں کہنے سے تو مقصد حاصل نہ ہو سکا، نیز اس سے تکبر اور کبریائی کی بو آتی ہے کہ مجھے شناخت کروانے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ایسے موقع پر اجازت طلب کرنے والے کو اپنی مکمل شناخت کروانی چاہیے، تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور اس کے ساتھ اس کے شایان شان سلوک کیا جا سکے، اس لیے حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرتے وقت کہا تھا، یہ عبداللہ بن قیس اجازت طلب کر رہا ہے، یہ ابو موسیٰ حاضر ہے، یہ اشعری موجود ہے، بعض دفعہ محض نام بتانے سے شناخت نہیں ہوتی، اس لیے یہ لطیفہ پیش آیا تھا کہ امام زمخشری سے کسی نحوی نے اجازت طلب کی تو اس نے پوچھا، تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا، عمر (لیکن اس سے شناخت نہ ہو سکی) تو زمخشری نے کہا، واپس لوٹ جاؤ، اجازت طلب کرنے والے نے کہا، عمر منصرف نہیں ہے، زمخشری نے کہا، اگر اس کو نکرہ بنا دیا جائے تو وہ منصرف ہو جاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5635
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6250
6250. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس قرض کے متعلق حاضر ہوا جو میرے والد گرامی کے ذمے تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے دریافت فرمایا: ”کون ہو؟“ میں نے عرض کی: میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میں ہوں، میں ہوں“ گویا آپ نے اس انداز کو ناپسند فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6250]
حدیث حاشیہ: کیونکہ بعض وقت صرف آواز سے صاحب خانہ پہچان نہیں سکتا کہ کون ہے اس لئے جواب میں اپنا نام بیان کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6250
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6250
6250. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس قرض کے متعلق حاضر ہوا جو میرے والد گرامی کے ذمے تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے دریافت فرمایا: ”کون ہو؟“ میں نے عرض کی: میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میں ہوں، میں ہوں“ گویا آپ نے اس انداز کو ناپسند فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6250]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دروازہ کھٹکھٹانا یہی اجازت طلب کرنے کے مفہوم میں ہے، پھر کسی کے سامنے آنے پر السلام علیکم کہا جائے۔ گھنٹی بجانے کو اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے، نیز دستک دینے والے کو اپنا نام یا عرف بتانا چاہیے۔ دریافت کرنے پرمیں، میں کہنا خلاف ادب اور ناکافی تعارف ہے۔ (2) حدیث میں مذکورہ کلمہ ”میں، میں“ اس لیے پسند نہ آیا کہ اس میں سوال کا جواب نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے تھا: میں جابر ہوں، چنانچہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر کہا تھا: قربان جاؤں! میں بریدہ ہوں۔ (الأدب المفرد، حدیث: 803)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6250