فوائد و مسائل: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
«أنه كان يرفع يديه فى أول تكبيرة، ثم لا يعود.»
”آپ پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے، پھر دوبارہ نہ کرتے۔“ [مسند احمد:441،388/1، سنن ابي داود:748، سنن نسائي:1059، سنن ترمذي:257]
تبصرہ: ➊ یہ روایت
”ضعیف
“ ہے،
اس میں سفیان ثوری ہیں، جو کہ بالاجماع
”مدلس
“ ہیں، ساری کی ساری سندوں میں
«عن» سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
مسلم اصول ہے کہ جب
”ثقہ مدلس
“ بخاری و مسلم کے علاوہ
«عن» یا
«قال» کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ
”ضعیف
“ ہوتی ہے۔
اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ
(م: 181ھ) نے امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ
(م: 183ھ) سے پوچھا، آپ
”تدلیس
“ کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
«ان كبيريك قد دلسا الأعمش وسفيان.» ”آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان رحمہ اللہ علیہما نے بھی تدلیس کی ہے۔
“ [الكامل لابن عدي:95/1، 135/7 وسنده صحيح] ◈ امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
«سفيان من المدلسين، والمدلس لا يحتج بعنعنته الا أن يثبت سماعه من طريق آخر.» ”سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے۔
“ [عمدة القاري:112/3] ➋ یہ
”ضعیف
“ روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ حدیث عدم رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
➌ مانعین رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں؟
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ محدیثین کرام کی نظر میں: ◈ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يثبت عندي حديث ابن مسعود.» ”میرے نزدیک حدیث ابن مسعود ثابت نہیں۔
“ [سنن الترمذي: تحت حديث256، سنن الدارقطني:393/1، السنن الكبريٰ للبيهي:79/2، وسنده صحيح] ◈ امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.» ”یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
“ ◈ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا خطأ.» ”یہ غلطی ہے۔
“ [العلل:96/1] ◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وليس قول من قال: ثم لم يعد محفوظا.» ”جس راوی نے دوبارہ رفع یدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں، اس کی روایت محفوظ نہیں۔
“ [العلل:173/5] ◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هو فى الحقيقة أضعف شئ يعول عليه، لأن له عللا تبطله.» ”درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جات ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔
“ [التلخيص الحبير لابن حجر:222/1] تنبیہ: اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن“ کہا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے:
”ابن دحیہ نے اپنی کتاب
”العلم المشہور
“ میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی
«موضوع» (من گھڑت) اور
”ضعیف
“ سندوں والی احادیث کو
«حسن» کہہ دیا ہے۔
“ [نصب الراية للزيلعي:217/2، البناية للعيني:869/2، مقالات الكوثري:311، صفائح اللجين از احمد رضا خان بريلوي:29]