عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے اگر میں نے اسے ایک یا دو بار سنا ہوتا یہاں تک کہ سات مرتبہ گنا تو میں اسے تم سے بیان نہ کرتا، لیکن میں نے اسے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ کے کرنے سے پرہیز نہیں کرتا تھا، چنانچہ اس کے پاس ایک عورت آئی، اس نے اسے ساٹھ دینار اس لیے دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا، لیکن جب وہ اس کے آگے بیٹھا جیسا کہ مرد اپنی بیوی کے آگے بیٹھتا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور رونے لگی، اس شخص نے پوچھا: تم کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟ وہ بولی: نہیں، لیکن آج میں وہ کام کر رہی ہوں جو میں نے کبھی نہیں کیا اور اس کام کے کرنے پر مجھے سخت ضرورت نے مجبور کیا ہے، چنانچہ اس نے کہا: تم ایسا غلط کام کرنے جا رہی ہے جسے تم نے کبھی نہیں کیا، اس لیے تم جاؤ، وہ سب دینار بھی تمہارے لیے ہیں، پھر اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا، پھر اسی رات میں اس کا انتقال ہو گیا، چنانچہ صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا ”بیشک اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا““۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے شیبان اور دیگر لوگوں نے اعمش سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے، اور بعض لوگوں نے اسے اعمش سے غیر مرفوع روایت کیا ہے، ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے لیکن اس میں غلطی کی ہے، اور «عن عبد الله بن عبد الله عن سعيد بن جبير عن ابن عمر» کہا ہے جو کہ غیر محفوظ ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2496]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7049)، وانظر مسند احمد (3/23) (ضعیف) (سند میں سعد مولی طلحہ مجہول ہے، نیز اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: 4083)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4083)
قال الشيخ زبير على زئي: (2496) إسناده ضعيف الأعمش عنعن (تقدم: 169)
الكفل من بني إسرائيل لا يتورع من ذنب عمله فأتته امرأة فأعطاها ستين دينارا على أن يطأها فلما قعد منها مقعد الرجل من امرأته أرعدت وبكت فقال ما يبكيك أأكرهتك قالت لا ولكنه عمل ما عملته قط وما حملني عليه إلا الحاجة فقال تفعلين أنت هذا وما فعلته اذهبي فهي لك و