ابو سلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا، چنانچہ میں ڈاک سواری خچر پر سوار ہو کر آپ کے پاس پہنچا، میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا: ابو سلام! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان رضی الله عنہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو، چنانچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں، ابو سلام نے کہا: ثوبان رضی الله عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اردن والے عمان تک کا فاصلہ ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سر دھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جو ناز و نعم عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لیے جاہ و منزلت کے دروازے کھولے جاتے“۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: لیکن میں نے تو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ و منزلت کے دروازے بھی کھولے گئے، میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سر کو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہو جائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہو جائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے «عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ۳- ابو سلام حبشی کا نام ممطور ہے، یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2444]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الزہد 36 (4303) (تحفة الأشراف: 2129) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر اس کا مرفوع حصہ صحیح ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: 1082)»
قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه، ابن ماجة (4303) // صحيح سنن ابن ماجة برقم (3472) ، ضعيف سنن ابن ماجة برقم (937) ، الصحيحة (1082) ، السنة لابن أبي عاصم (707 و 708) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2444) إسناده ضعيف / جه 4303 سنده منقطع، العباس بن سالم لم يسمعه من أبى سلام (انظر سنن ابن ماجه: 4303) وأحاديث مسلم (2301) وابن حبان (الموارد: 2601) وغيرهما تغني عنه
حوضي من عدن إلى عمان البلقاء ماؤه أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل أكاويبه عدد نجوم السماء من شرب منه شربة لم يظمأ بعدها أبدا أول الناس ورودا عليه فقراء المهاجرين الشعث رءوسا الدنس ثيابا الذين لا ينكحون المتنعمات ولا تفتح لهم السدد قال عمر لكني نكحت ا
حوضي ما بين عدن إلى أيلة أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل أوانيه كعدد نجوم السماء من شرب منه شربة لم يظمأ بعدها أبدا أول من يرده علي فقراء المهاجرين الدنس ثيابا والشعث رءوسا الذين لا ينكحون المنعمات ولا يفتح لهم السدد
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4303
´حوض کوثر کا بیان۔` ابوسلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے مجھ کو بلا بھیجا، میں ان کے پاس ڈاک کے گھوڑے پر بیٹھ کر آیا، جب میں پہنچا تو انہوں نے کہا: اے ابو سلام! ہم نے آپ کو زحمت دی کہ آپ کو تیز سواری سے آنا پڑا، میں نے کہا: بیشک، اللہ کی قسم! اے امیر المؤمنین! (ہاں واقعی تکلیف ہوئی ہے)، انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن مجھے پتا چلا کہ آپ ثوبان رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام) سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ یہ حدیث براہ راست آپ سے سن لوں، تو میں نے کہا کہ مجھ سے ثوبان رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4303]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غریب و گم نام مسلمان اگر نیک ہے تو اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے۔
(2) اگر اللہ تعالی دولت دے تو زیب و زینت فخر و مباہات کے بجائے سادگی اختیار کرنا درجا ت کی بلندی کا باعث ہے۔
(3) دروازے کھولے جانے کا مطلب یہ ھے کہ دنیا میں بلند مقام کی وجہ سے سب لوگ ان کا احترام کرتے ہیں اور جس کے پاس جائیں وہ دروازہ کھول کر ان کا استقبال کرتا ہے۔ ۔ جبکہ غریب آدمی سے اس کے بر عکس سلوک ہوتا ہے۔
(4) میلے پراگندہ با ل رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ مناسب صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے۔ بلکہ یہ مطلب ھے کہ زیب و زینت میں حد سے زیادہ انہماک نہ ہو۔
(5) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ خلیفہ ہونے کے باوجود علم حدیث کا اتنا شوق رکھتے تھے کہ جس عالم کے بارے میں انہیں معلوم ہوا کہ اسے کوئی حدیث یاد ہے تو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا۔ مسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(6) علمائے کرام کا فرض ہے کہ دین سے محبت کرنے والے حکام کا احترام کریں۔ اور ان کے احکام کی تعمیل کی پوری کوشش کریں (7) عمر بن عبدالعزیز ؒ نے یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ فورا پہنچیں لیکن ابو سلام ؒ نے اطاعت امیر میں مشقت اٹھا کر جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4303