انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2400]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المرضی 7 (تعلیقا عقب حدیث رقم 5653، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفة الأشراف: 1643) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انسان کو جو نعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر و رضا سے کام لیتا ہے تو اسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیز سے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (4 / 155 و 156)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2400
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: انسان کوجونعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اوربندہ اس پر صبرورضا سے کام لیتا ہے تواسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیزسے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2400
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5653
5653. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جب میں اپنے بندے کی دو محبوب چیزوں سے آزمائش کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو اس کے عوض میں اسے جنت عطا کرتا ہوں۔“ دو محبوب چیزوں سے مراد اس کی دو آنکھیں ہیں اشعت بن جابر اور ابو ظلال بن ہلال نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں عمرو کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5653]
حدیث حاشیہ: (1) آنکھیں انسان کے محبوب اعضاء میں سے ہیں۔ ان کی قدر و قیمت ان حضرات سے معلوم کی جا سکتی ہے جو ان سے محروم ہیں۔ ان کے نہ ہونے پر صبر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے اور کسی سے آنکھوں کے نہ ہونے کا شکوہ نہ کرے اور نہ بے چینی اور بے قراری ہی کا اظہار کرے، چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ صبر کرنے کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی بھی نیت رکھے۔ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2401)(2) اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے تو اس کی وجہ ناراضی نہیں بلکہ اس کے ذریعے سے کسی دوسری مصیبت کو ٹالتا ہے یا اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندئ درجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اگر اس قسم کی مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اس کی مراد پوری ہو سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5653