ابوہریرہ یا ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حکمراں ہے، دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ۱؎، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو ۲؎ چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں ۳؎، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث امام مالک بن انس سے اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی اسی کے مثل مروی ہے، ان میں بھی راوی نے شک کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے «عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد» اور عبیداللہ بن عمر عمری نے اس حدیث کو خبیب بن عبدالرحمٰن سے بغیر شک کے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے صرف «عن أبي هريرة» کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2391]
وضاحت: ۱؎: یعنی بچپن سے ہی اس کی تربیت اسلامی خطوط پر ہوئی اور جوانی کی آنکھیں کھولتے ہی وہ اللہ کی عبادت کو سمجھتا تھا اور پھر وہ اس پر کاربند رہا۔
۲؎: یعنی وہ اس انتظار میں رہے کہ کب اذان ہو اور وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جائے۔
۳؎: یعنی ان کے اکٹھا ہونے اور جدا ہونے کی بنیاد دین ہے، گویا دین کی پابندی انہیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے اور دین سے انحراف انہیں باہم جدا کر دیتا ہے۔
سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله الإمام العادل شاب نشأ بعبادة الله رجل قلبه معلق في المساجد رجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه رجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال إني أخاف الله رجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم يمينه ما تنف
سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله إمام عادل وشاب نشأ بعبادة الله ورجل كان قلبه معلقا بالمسجد إذا خرج منه حتى يعود إليه ورجلان تحابا في الله فاجتمعا على ذلك وتفرقا ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه ورجل دعته امرأة ذات حسب وجمال فقال إني أخ
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2391
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی بچپن سے ہی اس کی تربیت اسلامی خطوط پرہوئی اورجوانی کی آنکھیں کھولتے ہی وہ اللہ کی عبادت کوسمجھتا تھا اورپھروہ اس پرکاربند رہا۔
2؎: یعنی وہ اس انتظارمیں رہے کہ کب اذان ہواوروہ نمازپڑھنے کے لیے مسجد میں جائے۔
3؎: یعنی ان کے اکٹھا ہونے اورجدا ہونے کی بنیاد دین ہے، گویا دین کی پابندی انہیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے اوردین سے انحراف انہیں باہم جدا کر دیتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2391
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2380
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل امام وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھاوہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہےوہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر الگ ہوتے ہیں (ہر حالت میں ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت کرتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2380]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث کا مقصد ان تمام امور خیر کی تلقین اور ترغیب دینا ہے اور امام سے مقصود صاحب منصب عہدہ ہے جس سے وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگرچہ درجات و مراتب میں فرق ہے اپنے عہدہ کے مطابق سایہ ملے گا ظل کی اللہ کی طرف نسبت محض تشریف و تعظیم کے لیے ہے جیسے بیت اللہ ناقۃاللہ اصل مقصد اللہ کے عرش کا سایہ ہے جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (منة المنعم ج 2 ص112 حاشیہ نمبر91)
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے «مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ» کی بجائے «مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ» اور «ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ» کی بجائے «ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ» کہا۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2391M]