ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «جب الحزن»(غم کی وادی) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «جب الحزن» کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے“، پھر صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ریاکار قراء (اس میں داخل ہوں گے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2383]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 23 (256) (تحفة الأشراف: 14586) (ضعیف) (سند میں ”ابو معان“ یا ”ابو معاذ“ مجہول راوی ہے، اور ”عمار بن سیف“ ضعیف الحدیث، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس کا دوسرا طریق بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: 5023، و 5152)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (256) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (52) أتم من هنا وفي نسخة " القراء "، المشكاة (275) ، ضعيف الجامع الصغير (2460) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2383) إسناده ضعيف / جه 256 عمار بن سيف : ضعيف الحديث عابد (تق:4826) وشيخه أبو معان مجهول (تق:8375)
تعوذوا بالله من جب الحزن قالوا يا رسول الله وما جب الحزن قال واد في جهنم تتعوذ منه جهنم كل يوم مائة مرة قلنا يا رسول الله ومن يدخله قال القراء المراءون بأعمالهم
تعوذوا بالله من جب الحزن قالوا يا رسول الله وما جب الحزن قال واد في جهنم تعوذ منه جهنم كل يوم أربعمائة مرة قيل يا رسول الله من يدخله قال أعد للقراء المرائين بأعمالهم من أبغض القراء إلى الله الذين يزورون الأمراء
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2383
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ”ابومعان“ یا ”ابومعاذ“ مجہول راوی ہے، اور ”عمار بن سیف“ ضعیف الحدیث، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کا دوسرا طریق بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: 5023، و 5152)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2383
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 275
´ریا کار علماء اور قاری` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ؟ قَالَ: «وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّم كل يَوْم أَرْبَعمِائَة مرّة» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَدْخُلُهَا قَالَ: «الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَكَذَا ابْنُ مَاجَهْ وَزَادَ فِيهِ: «وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّاءِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الَّذِينَ يَزُورُونَ الْأُمَرَاءَ» . قَالَ الْمُحَارِبِيُّ: يَعْنِي الجورة . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غم کے کنوئیں سے تم اللہ کی پناہ مانگو۔“ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوزخ میں ایک وادی نالہ ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس میں کون داخل ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن پڑھنے والے جو اپنے عملوں کو لوگوں کو سیکھانے کے لیے کرتے ہیں۔“ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ برے وہ قاری لوگ ہیں جو ظالم امیروں سے ملتے ہیں۔ یعنی ریا نمود کے پڑھنے والے ایسے وحشت ناک کنوئیں میں سزا پائیں گے جس کا بیان حدیث میں ہے اسی لیے ہر کام میں اخلاص ضروری ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 275]
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ اس سند میں دو وجہ ضعف ہیں: ➊ عمار بن سیف الضبی الکوفی ضعیف راوی تھا۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: «ضعيف الحديث عابد» ”وہ حدیث میں ضعیف (اور) عبادت گزار تھا۔“[تقريب التهذيب: 4826] ➋ عمار بن سیف کا استاد ابومعان یا ابومعاذ البصری مجہول تھا۔