الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
40. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ
40. باب: دل کی بے نیازی اور استغناء اصل دولت ہے
حدیث نمبر: 2373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2373]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق 15 (6446)، صحیح مسلم/الزکاة 40 (1051)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4137) (تحفة الأشراف: 12845)، وحإ (2/243، 261، 315، 390، 438، 443، 539، 540) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: انسان کے پاس جو کچھ ہے اسی پر صابر و قانع رہ کر دوسروں سے بے نیاز رہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنا درحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے، گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے، دوسروں کے مال و دولت کو للچائی ہوئی نظر سے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4137)

   صحيح البخاريليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   صحيح مسلمليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   جامع الترمذيليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   سنن ابن ماجهليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   صحيفة همام بن منبهليس الغنى من كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   مسندالحميديليس الغنى عن كثرة العرض، إنما الغنى غنى النفس

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2373 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2373  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
انسان کے پاس جوکچھ ہے اسی پرصابروقانع رہ کردوسروں سے بے نیازرہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنادرحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے،
گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے،
دوسرں کے مال ودولت کوللچائی ہوئی نظرسے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2373   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4137  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری دنیاوی ساز و سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالداری تو دل کی بے نیازی اور آسودگی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان دولت اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس کے کام چلتے رہیں لیکن جب دولت خود مقصود بن جائے تو پھر مال ودولت کی کثرت کے باوجود سکون واطمینان حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔

(2)
قناعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پاس موجودہ رزق کو کافی سمجھےاور اپنی ضروریات کو اس حد تک محدود کرلے کہ حلال روزی میں گزارا ہوجائے۔

(3)
دولت مند وہ ہے جس کا دل دولت مند ہے۔
اور دولت مند تب ہوتا ہے جب اس میں حرص وبخل نہ ہو۔
ایسا آدمی تھوڑے سے مال سے اتنی خوشی حاصل کرلیتا ہے جو حریص کو بہت زیادہ مال سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4137   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1094  
1094- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خوشحالی مال ودولت زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی اصل خوشحالی دل کا خوشحال ہونا ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1094]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مال و دولت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، مومن انسان مال و دولت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا، آج لوگوں نے زندگی کا مقصد مال و دولت جمع کرنے کو ہی سمجھ لیا ہے، جبکہ مومن انسان جس کے پاس مال و دولت حقیقت میں نہیں ہوتا لیکن وہ دل کے لحاظ سے اس طرح ہوتا ہے جیسے اس کے پاس کروڑوں روپے ہیں، اس کی باتوں اور اس کے کردار سے وسعت محسوس ہوتی ہے، اور وہ ہر موقع پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے، لہٰذا انسان کو مال و دولت کی بجائے قرآن و سنت کے فہم اور اس پر عمل کرنے پر توجہ کرنی چاہیے، اور زندگی کا مقصد دین کی نشر و اشاعت، دین کی تبلیغ اور اس پر عمل کو بنانا چاہیے، انسانی ضروریات اللہ تعالیٰ خود بخود پوری فرما دیتے ہیں، ان شاءاللہ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1092   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2420  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دولت مندی و دولت یا مال و اسباب کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ حقیقی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2420]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تونگری اور محتاجی،
خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ پیشہ اور مال واسباب سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے اگر دل غنی اور بے نیاز ہے تو آدمی تونگر اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا اسیر ہے تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے وہ تونگری بدل است نہ بہ مال۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2420   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6446  
6446. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تونگری یہ نہیں کہ سامان زیادہ ہو بلکہ دولت مندی یہ ہے کہ دل غنی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6446]
حدیث حاشیہ:
دل غنی ہو تو تھوڑا ہی بہت ہے، دل غنی نہ ہو تو پہاڑ برابر دولت ملنے سے بھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6446   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6446  
6446. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تونگری یہ نہیں کہ سامان زیادہ ہو بلکہ دولت مندی یہ ہے کہ دل غنی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6446]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کثرتِ مال سے تونگری نہیں آتی کیونکہ بے شمار لوگ جن کے پاس مال و دولت کی کثرت ہوتی ہے وہ صبر اور قناعت سے خالی ہوتے ہیں اور مال کو زیادہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں ناجائز ذرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنے پڑیں، گویا حرص اور لالچ کی وجہ سے تنگدست اور حقیر ہیں۔
اگر انسان کا دل غنی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر صبر اور قناعت کرتا ہے اور کثرتِ مال کی خواہش نہیں کرتا تو حقیقت کے اعتبار سے ایسا انسان غنی ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، آپ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے ابوذر! کیا تو خیال کرتا ہے کہ مال کی کثرت تونگری ہے۔
میں نے کہا:
ہاں۔
آپ نے فرمایا:
کیا تو سمجھتا ہے کہ مال کی قلت ناداری ہے؟ میں نے عرض کی:
جی ہاں۔
آپ نے فرمایا:
تونگری تو دل کی مال داری ہے اور فقیری تو دل کی ناداری ہے۔
(الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 396/2) (2)
قرآن کریم نے ایسے بے نیاز حضرات کی مال داری کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں خوشحال سمجھتے ہیں۔
آپ ان کے چہروں سے ان کی کیفیت پہچان سکتے ہیں۔
وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔
(البقرة: 273) (3)
﴿وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس غنا سے مراد بھی دل کی تونگری ہے۔
(فتح الباري: 329/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6446