عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا: ”تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو“۔ مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کر لو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اعمش نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عمر رضی الله عنہما سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2333]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق 3 (6416)، سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4114) (تحفة الأشراف: 7386)، و مسند احمد (2/24، 131) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو، گویا تم دنیا سے جا چکے، اسی لیے آگے فرمایا: صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پا لینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لو، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1157)
قال الشيخ زبير على زئي: (2333) إسناده ضعيف / جه 4114 ليث بن أبى سليم ضعيف (تقدم: 218) وحديث البخاري (6416) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2333
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اوردنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافردوران سفرکچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتاہے، تم دنیاکواپنے لیے ایسا ہی سمجھو، بلکہ اپنا شمارقبروالوں میں کرو، گویا تم دنیا سے جا چکے، اسی لیے آگے فرمایا: صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظارمت کرواورشام پا لینے کے بعد صبح کا انتظارمت کروبلکہ اپنی صحت وتندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو، کیونکہ تمہیں کچھ خبرنہیں کہ کل تمہارا شمارمردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2333
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1268
دنیا میں پردیسی یا راہ گیر کی طرح رہو۔ «وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بمنكبي فقال: كن فى الدنيا كانك غريب او عابر سبيل وكان ابن عمر يقول: إذا امسيت فلا تنتظر الصباح وإذا اصبحت فلا تنتظر المساء وخذ من صحتك لسقمك ومن حياتك لموتك. اخرجه البخاري.» ”ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے کو پکڑ کر فرمایا: دنیا میں اس طرح رہ کہ تو پردیسی ہے یا راہ گزرنے والا ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: جب تم شام کرے تو صبح کا انتظار مت کر اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار مت کر اور اپنی تندرستی سے اپنی بیماری کے لیے اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لئے (کچھ نہ کچھ) حاصل کر لے۔“ بخاری۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1268]
تخریج: [بخاري 6416]، [تحفته الاشراف 481/5، 28/6]
فوائد: ➊ دنیا میں اس طرح رہ جس طرح کہ تو ایک پردیسی ہے یا راہ گزرنے والا۔ دونوں کا فرق یہ ہے کہ بعض اوقات مسافر چل رہا ہوتا ہے اور بعض اوقات کچھ دیر کے لیے کہیں عارضی اقامت بھی اختیار کر لیتا ہے پہلی صورت میں وہ عابر سبیل ہے دوسری صورت میں غریب۔ ➋ پردیسی آدمی اگر کہیں کچھ دیر کے لیے ٹھہر بھی جائے تو وہ دل نہیں لگاتا کیونکہ اس کی منزل آگے ہوتی ہے زیادہ سامان اور جائیداد نہیں بناتا کیونکہ اس نے وہاں رہنا نہیں ہوتا اور اسے یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا لباس اور وضع قطع اس شہر کے لوگوں جیسی ہے یا نہیں کیونکہ اس نے وہاں سے چلے جانا ہوتا ہے اس کا لوگوں سے زیادہ میل جول نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس کے ہم وطن نہیں ہوتے اور جو مسافر ابھی راہ طے کر رہا ہو وہ اتنا سامان بھی نہیں اٹھاتا جو کسی پردیسی کے عارضی اقامت کے دوران جمع ہو جاتا ہے صرف اتنا سامان ساتھ لیتا ہے جس کے بغیر چارہ نہیں۔ حدیث میں رہنمائی کی گئی کہ پردیسی کی طرح دنیا میں رہ یا راہ گیر کی طرح دونوں طرح اجازت ہے مگر اسے وطن نہ بنا لو۔ یا «اَوْ» بمعنی «بَلْ» ہے یعنی دنیا میں پردیسی کی طرح رہو بلکہ (بہتر ہے کہ) راہ گیر کی طرح رہو مطلب یہ ہے کہ دنیا میں زہد اختیار کرو اور صرف اتنے سامان پر گزارا کرو جس کے بغیر چارہ نہیں۔ ➌ ”جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر“ یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے یعنی لمبی امیدیں نہ باندھ بلکہ اپنی موت کو بالکل قریب سمجھ۔ جب موت انسان کی پیش نظر ہو تو وہ ہر وقت ایسی حالت میں رہتا ہے کہ موت آ جائے تو اسے ندامت نہ ہو۔ ہر وقت اللہ سے ڈرتا ہے اور مستعد رہتا ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ»[3-آل عمران:102] ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت ہرگز نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔“ ➍ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ صحت اور زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی چیزیں نہیں بیماری اور موت بھی انسان کی گھات میں ہیں اس لئے اسے چاہئیے کہ صحت کی حالت میں بیماری کے لیے اعمال ذخیرہ کر لے اور زندگی میں موت کے لئے سامان مہیا کر لے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 106
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1268
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پکڑ کر فرمایا ”(اے ابن عمر!) دنیا میں ایک اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح رہ۔“ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے، جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا منتظر نہ رہ اور اپنی تندرستی کے وقت اپنی بیماری کا کچھ سامان کر اور زندگی میں موت کی تیاری کر۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1268»
تخریج: «أخرجه البخاري، الرقاق، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: "كن في الدنيا كأنك غريب..."، حديث:6416.»
تشریح: اس حدیث میں دنیا کی بے ثباتی اور اس کے فانی ہونے کا بیان ہے اور زندگی بسر کرنے کا ایک اصول بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو کس خیال سے رہنا چاہیے۔ دنیا انسان کا گھر نہیں بلکہ مسافر خانہ ہے‘ جیسے مسافر اپنی اصل منزل کی جانب رواں دواں رہتاہے‘ راستے کی چیزوں سے قلبی تعلق وابستہ نہیں کرتا‘ اس کا مطمح نظر اپنی منزل مقصود تک رسائی پانا ہوتا ہے‘ دنیا میں بھی ایک انسان کو بس اسی طرح رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں کب رخت سفر باندھنے کا حکم صادر ہو جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1268
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4114
´دنیا کی مثال۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کا بعض حصہ (کندھا) تھاما اور فرمایا: ”عبداللہ! دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4114]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے مذکورہ روایت کے اس جملے: (وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ القُبُور) کے سوا باقی روایت محفوظ ہے جبکہ شیخ البانی اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت مذکورہ جملے کے سوا صحیح ہےنیز مسند احمد کے محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت درج بالا جملے کے سوا صحیح لغیرہ ہے اور مذکورہ جملہ حسن لغیرہ ہے۔ اور یہی بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے یعنی مذکورہ حدیث کے دونوں جملے قابل حجت ہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 8/ 383، 385) وصحيح سنن ابن ماجة للألباني رقم: 3338) کندھے سے پکڑنے کا مطلب متوجہ کرنا تھا تاکہ بات توجہ سے سنی جائے اور ذہن نشین ہوجائے۔
(3) دنیا انسان کا وطن نہیں آخرت اس کا وطن ہےاس لیے دنیا میں صرف اتنا اہتمام کرنا چاہیے جتنا کوئی مسافر کسی جگہ ٹھہرتے وقت کرتا ہے۔
(4) زندگی میں بہت زیادہ آسائشوں کا عادی نہیں ہونا چاہیے۔
(5) پردیسی اور مسافر اپنی وقتی ضروریات کو اہمیت دیتا ہےاور سفر کی تیاری سے غافل نہیں ہوتا اسی طرح مومن دنیا میں رہ کر آخرت کمانے کی کوشش کرتا ہےدنیا اس کا اصل مقصود نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4114
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6416
6416. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا: ”دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستے پر چلنے والے ہو۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے: شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تندرستی کی حالت میں وہ عمل کرو جو بیماری کے دنوں میں کا م آئیں اور زندگی کوموت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6416]
حدیث حاشیہ: (1) انسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور انجام آخرت سے بے فکر ہو کر نفسانی خواہشات اور دنیا کی فانی لذتوں ہی کو اپنا مقصد بنا لے اور ہمیشہ کے لیے کوشاں رہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا کے متعلق تعلیم یہ ہے کہ اس میں پردیسی یا راستہ چلتے مسافر کی طرح رہا جائے۔ کوئی مسافر بھی اپنی راہ گزر کو اپنا اصل وطن نہیں سمجھتا اور وہاں رہنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا۔ اسی طرح مومن کو چاہیے کہ وہ اس دنیا کو اپنا اصل وطن خیال نہ کرے اور ایسی فکر نہ کرے گویا یہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ موت کے بعد والی زندگی کو اصل اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مضمون حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت کے حوالے سے بیان کیا، وہ ایک مرفوع روایت میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت خیال کرو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔ “(المستدرك للحاکم: 306/4) مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، لہذا اسے چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے کچھ کام کرنے کا موقع عطا فرمائے تو اسے غنیمت خیال کرتے ہوئے اخروی کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہو اس وقت کرے، کیا خبر کہ آئندہ اسے موقع نہ مل سکے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6416