سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دو آدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں، ابن مسعود رضی الله عنہ نے علقمہ اور اسود کو نماز پڑھائی تو ان دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود رضی الله عنہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، ۴- بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پر ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 233]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4575) (ضیعف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں، مگر اصل حدیث شواہد سے ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: سند کے لحاظ سے اگرچہ یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے مگر سارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر دو آدمی ہوں اور جگہ میں گنجائش ہو تو دونوں مقتدی پیچھے کھڑے ہوں گے اور ایک جو امام ہو گا وہ آگے کھڑا ہو گا، رہا ابن مسعود رضی الله عنہ کا دونوں کو اپنے دائیں بائیں ساتھ میں کھڑا کر لینے کا معاملہ تو ہو سکتا ہے کہ وہاں جگہ ایسی نہ ہو، ویسے اسی واقعہ میں ہے کہ انہوں نے رکوع میں تطبیق کی اور دونوں سے کرائی۔ تطبیق کا مطلب ہوتا ہے: رکوع یا تشہد میں مصلی کا اپنے دونوں ہاتھوں یا ہتھیلیوں کو رانوں یا گھٹنوں کے درمیان رکھنا، اور یہ منسوخ و ممنوع ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف إسماعيل بن مسلم المكي (تق:484) ضعیف ولبعض الحديث شواهد عنه ابن ماجه (974) وغيره .
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 233
اردو حاشہ: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: 1- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے۔ 2- اس باب میں ابن مسعود، جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ 3- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دو آدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ اور اسود کو نماز پڑھائی تو ان دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائین طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا۔ 4- بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پر ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے1؎۔
نوٹ: (سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں، مگر اصل حدیث شواہد سے ثابت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 233