عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے ۱؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2326]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الزکاة 29 (1645) (تحفة الأشراف: 9319)، و مسند احمد (1/389) (صحیح) ”بموت عاجل أو غني عاجل“) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن ابی داود 1452، الصحیحة 2887)»
وضاحت: ۱؎: یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اور لاچاری کا تذکرہ کر کے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہو گی، اور اگر وقتی طور پر پوری ہو بھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہو گا۔
۲؎: چونکہ اس نے صبر سے کام لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا، معلوم ہوا کہ حاجت و ضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ: " ... بموت عاجل أو غنى عاجل "، صحيح أبي داود (1452) ، الصحيحة (2787)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2326
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اورلاچاری کا تذکرہ کرکے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوگی، اور اگروقتی طورپر پوری ہوبھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہوگا۔
2؎: چونکہ اس نے صبر سے کام لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا، معلوم ہوا کہ حاجت وضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
نوٹ:
(بموت عاجل أو غني عاجل) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن أبي داؤد 1452، الصحیحة: 2887)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2326
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1645
´سوال سے بچنے کا بیان۔` ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے ظاہر کر دے تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو اس کو اللہ سے ظاہر کرے (یعنی اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا مانگے) تو قریب ہے کہ اسے اللہ بے پروا کر دے یا تو جلد موت دے کر یا جلد مالدار کر کے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1645]
1645. اردو حاشیہ: مومن کو اپنی ضروریات اور مشکلات ااسی ذات کے سامنے پیش کرنی چاہیں۔ جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور ہر اعتبار سے الغنی اور المغنی ہے۔لوگ کہاں تک کسی کی دستگیری کرسکتے ہیں۔آج ایک حاجت ہے تو کل دوسری سامنے ہے۔اس لئے ہمیشہ اللہ ہی سے سوال کرنا چاہیے۔رسول اللہ ﷺکی سیرت میں زندگی کے ادنیٰ واعلیٰ تمام امور سے متعلق دعایئں موجود ہیں۔ان کو اپنا حرز جان اور ورد ایام بنا لینا چاہیے۔عزیمت یہی ہے کہ انسان کسی سے کچھ نہ مانگے جیسے کہ تعلیم رسول اللہﷺ اورسیرت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اوپر زکر آیا ہے۔تاہم دنیا دارلاسباب ہے۔عام ضروریات کا لوگوں سے طلب کرلینا مباح ہے۔اور جو امور ظاہری اسباب سے بالا ہیں۔ان کا سوال صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے۔ان کا غیراللہ سے سوال کرنا شرک ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1645