ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2322]
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکر الٰہی سے غافل کر دینے والی ہوں، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اور لذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگر یہی مال برا اور لعنت کے قابل ہے، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دے بصورت دیگر یہ بھی برا ہے، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2322
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکرالٰہی سے غافل کردینے والی ہوں، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اورلذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگر یہی مال برااورلعنت کے قابل ہے، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کردے بصورت دیگریہ بھی برا ہے، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2322
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4112
´دنیا کی مثال۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کی یاد کے، اور اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، یا عالم کے یا متعلم کے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4112]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لعنت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے یعنی دنیا چونکہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہےاس لیے یہ لعنت کا باعث ہے۔
(2) ہر وہ چیز یا عمل جس کا اللہ کی یاد سے کسی بھی انداز سے کوئی تعلق ہو اس پر یا اس کی وجہ سے رحمت نازل ہوتی ہے چنانچہ تلاوت نماز اللہ کے لیے جانور کی قربانی اور حج وعمرہ کے اعمال سب رحمت کا باعث ہیں۔ ایسے اعمال انجام دینے والا اللہ کی لعنت سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح کعبہ، صفا ومروہ، منی، عرفات، مزدلفہ اور ہر مسجد ومدرسہ اللہ کی رحمت کے مقامات ہیں۔ یہاں دین کی خدمات انجام دینا اور دین کے خادموں کی ضروریات مہیا کرنا، دینی کتابیں چھاپنا اور دوسروں تک پہنچانا، ان کی تعلیم دینا اور تعلیم حاصل کرناعلماء و طلباء کی ضروریات پوری کرنے کی نیت سے حلال روزی کمانا، یہ سب اللہ کی رحمت کے اسباب ہیں۔
(3) دین کے علم سے کسی بھی انداز سے منسلک ہونا اللہ کی رحمت کا باعث ہے اس لیے اگر دنیوی علوم و فنون بھی خدمت دین کی نیت سے حاصل کی جائیں تو وہ بھی دین کے خادم علوم ہونے کی وجہ سے لعنت کے دائرے سے خارج ہو جائیں گے۔ اگر نیت نہ ہو تو یہ علوم رحمت کا باعث نہیں ہوں گے۔
(4) حلال روزی کمانا اللہ کا حکم ہےاس لیے اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے حلال روزی کمانا اور حلال کاموں میں خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4112