الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
63. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
63. باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2247
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَاحْتَبَسَهُ، وَهُوَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى عَرْشًا فَوْقَ الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ، قَالَ: فَمَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى صَادِقًا وَكَاذِبِينَ، أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لُبِسَ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَحَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے، آپ نے اسے پکڑ لیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟، اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیا دیکھتے ہو؟ ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپر ایک عرش دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سمندر کے اوپر ابلیس کا عرش دیکھتے ہو، آپ نے فرمایا: اور بھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اور دو جھوٹے یا دو جھوٹے اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عمر، حسین بن علی، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اور حفصہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2247]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن 19 (2925/87) (تحفة الأشراف: 4329) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس میں سے کیا دیکھتے ہو؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   جامع الترمذيأتشهد أني رسول الله فقال أتشهد أنت أني رسول الله فقال النبي آمنت بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر قال له النبي ما ترى قال أرى عرشا فوق الماء فقال النبي ترى عرش إبليس فوق البحر قال فما ترى قال

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2247 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2247  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جولوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے،
اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے،
اس میں سے کیاد یکھتے ہو؟۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2247