عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابو محمد! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں
(برسبیل انکار) کچھ گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے کہا: بیٹے! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: سورۃ الزخرف پڑھو، میں نے پڑھا:
«حم والكتاب المبين إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون وإنه في أم الكتاب لدينا لعلي حكيم» ”حم، قسم ہے اس واضح کتاب کی، ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو، یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے، اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے
“ (الزخرف: ۱-۴) پڑھی، انہوں نے کہا: جانتے ہو ام الکتاب کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے کہا: وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھا ہے، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ فرعون جہنمی ہے اور اس میں
«تبت يدا أبي لهب وتب» ”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، اور وہ
(خود) ہلاک ہو گیا
“ (تبت: ۱) بھی لکھا ہوا ہے۔ عطاء کہتے ہیں: پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ملا
(ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا: مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی؟ کہا: میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا: بیٹے! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا
“ اور فرمایا:
”لکھو
“، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2155]