ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت کو دور کرتا ہے، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ابومعشر کا نام نجیح ہے وہ بنی ہاشم کے (آزاد کردہ) غلام ہیں، ان کے حافظے کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2130]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13072) (ضعیف) (سند میں ابو معشر سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا، ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی سے صحیحین میں مروی ہے، دیکھیے: صحیح البخاری/الأدب 30 (6017)، صحیح مسلم/الزکاة 30 (1030)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجنا چاہیئے کیوں اس سے آپس میں دلی محبت اور قلبی لگاؤ میں اضافہ ہوتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدیہ خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے، اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، بلکہ وہ ہدیہ جو مقدار میں کم ہو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ہدیہ بھیجنے والے کو زیادہ تکلف نہیں کرنا پڑتا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن الشطر الثاني منه صحيح، المشكاة (3028) // ضعيف الجامع الصغير (2489) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2130) إسناده ضعيف أبو معشر نجيح السندي : ضعيف (د 3778)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2130
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجنا چاہیے کیوں اس سے آپس میں دلی محبت اور قلبی لگاؤ میں اضافہ ہوتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدیہ خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے، اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، بلکہ وہ ہدیہ جو مقدار میں کم ہو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس میں ہدیہ بھیجنے والے کو زیادہ تکلف نہیں کرنا پڑتا۔
نوٹ: (سند میں ابومعشر سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے صحیحین میں مروی ہے، دیکھیے: خ/الأدب 30 (6017)، م/الزکاۃ 30 (1030)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2130