ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: کھنبی زمین کی چیچک ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صحرائے عرب کا «فقعہ» ایک طرح کا «من» ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے، اور عجوہ کھجور جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے، وہ زہر کے لیے شفاء ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2068]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2066 (تحفة الأشراف: 13496) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3455
´کھمبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گفتگو کر رہے تھے کہ کھمبی کا ذکر آ گیا، تو لوگوں نے کہا: وہ تو زمین کی چیچک ہے، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھمبی «منّ» میں سے ہے، اور عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے، اور اس میں زہر سے شفاء ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3455]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: جنت سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ برکت والی ہے۔ یا کھجور کی یہ قسم جنت سے زمین پر آئی ہے۔ جسطرح حجراسود جنت سے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3455
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2066
´صحرائے عرب میں زیر زمین پائی جانے والی ایک ترکاری (فقعہ) اور عجوہ کھجور کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عجوہ (کھجور) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے اور صحرائے عرب کا «فقعہ»۱؎ ایک طرح کا «من»(سلوی والا «من») ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2066]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہاں حدیث میں وارد لفظ (الکمأۃ) کا ترجمہ ”کھمبی“ قطعاً درست نہیں ہے ”الکمأۃ“ کوعربوں کی عامی زبان میں ”فقعہ“ کہا جاتا ہے، یہ فقعہ موسم سرما کی بارشوں کے بعد صحرائے نجد ونفود کبریٰ، مملکت سعودیہ کے شمال اورملکِ عراق کے جنوب میں پھیلے ہوئے بہت بڑے صحراء میں زیر زمین پھیلتا ہے، اس کی رنگت اورشکل وصورت آلو جیسی ہوتی ہے، جب کہ کھمبی زمین سے باہر اورہندوستان کے ریتلے علاقوں میں ہوتی ہے، ابن القیم، ابن حجر اوردیگرعلماء اُمّت نے (الکمأۃ) کی جوتعریف لکھی ہے اس کے مطابق بھی (الکمأۃ) درحقیقت فقعہ ہے کھمبی نہیں، (تفصیل کے لیے فتح الباری اورتحفۃ الأحوذی کا مطالعہ کرلیں، نیز اس پر تفصیلی کلام ابن ماجہ کے حدیث نمبر (3455) کے حاشہ میں ملاحظہ کریں، اور جہاں بھی کمأۃ کا ترجمہ کھمبی لکھا ہے، اس کی جگہ ”فقعہ“ لکھ لیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2066