انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پر ہے، اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا، جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1993]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (51) (تحفة الأشراف: 868) (ضعیف) سند میں سلمہ بن وردان لیثی مدنی ضعیف راوی ہیں، صحیح الفاظ ابو امامہ رضی الله عنہ کی حدیث سے اس طرح ہیں: ”أنا زعیم ببیت في ربض الجنة لمن ترک المزاح و إن کان محقا، و بیت في وسط الجنة لمن ترک الکذب و إن کان مازحا، و بیت في اعلی الجنة لمن حسن خلقہ“ (أبو داود رقم 4800) تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة 273)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ، ابن ماجة (51) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (6) ، الصحيحة (273) ، ضعيف الجامع برقم (5522) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1993) إسناده ضعيف / جه 51 سلمة بن وردان ضعيف (تق: 2514) وحديث أبى داود (4800) يغيني عنه
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث51
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لیے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لیے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لیے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 51]
اردو حاشہ: (1) کسی بھی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾(النساء: 128) ”صلح بہتر ہے۔“
(2) جب کوئی شخص اپنی غلطی محسوس کر لے تو اسے چاہیے کہ اس آیت کی تلاوت کرے تاکہ اختلاف ختم ہو جائے۔ یہ عمل اس قدر عظیم ہے کہ اس کی جزا کے طور پر جنت میں ایک محل ملے گا۔
(3) دنیوی معاملات میں یہ ممکن ہے کہ انسان اپنا جائز حق چھوڑ کر جھگڑا ختم کر دے۔ باہمی اتفاق و اتحاد کے لیے دی گئی یہ قربانی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت عظیم عمل ہے جس کا انعام یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت کے درمیان میں ایک عمدہ محل ملے گا۔
(4) مسلمان کے اخلاق اعلیٰ درجے کے ہونے چاہئیں تاکہ روزمرہ کے معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں، خوش خلقی، برداشت اور نرم خوئی کی صفات سے مزین ہو کر لڑائی جھگڑے کے امکانات ہی ختم کر دیے جائیں۔ معاشرے میں اس قسم کے افراد جتنے زیادہ ہوں گے، اتنا ہی امن و امان زیادہ ہو گا، اس لیے ایسا شخص مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد سے بلند تر مقام کا حامل ہے اور جنت میں بھی اسے ان سے اعلیٰ تر مقام حاصل ہو گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 51