عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو کر اوقات نماز کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی نماز کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنا لو، بعض نے کہا کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن (یعنی کسی جانور کا سینگ) بنا لو۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اس پر عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو نماز کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال اٹھو جاؤ نماز کے لیے پکارو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی (اس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ (جسے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے)۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 190]
وضاحت: ۱؎: یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کرنے کا اور بعض نے «بوق»”بگل“ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو باواز بلند «الصلاة جامعة» کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔
۲؎: دیکھئیے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷۔
المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة ليس ينادى لها فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم بل بوقا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة فقال رسول الله يا بلال قم فناد
المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلوات وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم قرنا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة قال رسول الله يا بلال قم فن
المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلوات وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم اتخذوا قرنا مثل قرن اليهود قال فقال عمر بن الخطاب أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة قال فقال رسول الله صلى ال
المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم بل قرنا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة فقال رسول الله صلى الله عليه وس
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 190
اردو حاشہ: 1؎: یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کر نے کا اور بعض نے بوق (بگل) استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے؛ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو بآواز بلند ((الصَّلاَةُ جَامِعَةٌ)) کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔
2؎: دیکھئے (صحیح البخاری حدیث 604وصحیح مسلم حدیث 837)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 190
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 627
´اذان کی شروعات۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت کا اندازہ کرتے تھے، اس وقت کوئی نماز کے لیے اذان نہیں دیتا تھا، تو ایک دن لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی، تو کچھ لوگ کہنے لگے: نصاریٰ کے مانند ایک ناقوس بنا لو، اور کچھ لوگ کہنے لگے: بلکہ یہود کے سنکھ کی طرح ایک سنکھ بنا لو، تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کسی شخص کو بھیج نہیں سکتے کہ وہ نماز کے لیے پکار دیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال! اٹھو اور نماز کے لیے پکارو۔“[سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 627]
627 ۔ اردو حاشیہ: ➊ پہلی دو تجویزوں کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت تھی جبکہ دینی امور میں غیرمسلموں سے مشابہت درست نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی ان سے امتیاز چاہیے۔ ّ ➋ ناقوس ایک لکڑی ہوتی تھی جسے دوسری لکڑی پر مارتے تھے تو آواز پیدا ہوتی تھی، پھر لوہے یا پیتل پر لکڑی مارنے لگے۔ ➌ قرن سینگ کی شکل کا ایک آلہ ہے جس کے ایک طرف پھونک ماری جائے تو دوسری طرف سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کا سائرن بھی قرن جیسی آواز پیدا کرتا ہے، اسی طرح ناقوس کی موجودہ صورت گھنٹی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی عبادات کے موقع پر گھنٹی یا سائرن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ➍ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کا حکم دینا اذان کی مشروعیت سے قبل کی بات ہے۔ وہ گلیوں میں «الصلاةُ جامِعةٌ»”نماز تیار ہے“کی آواز دیتے تھے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زید اور بعض دیگر صحابہ کو خواب میں اذان دکھایئ گئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے پر مقرر کیا گیا۔ یہ بعد کی بات ہے۔ اگر اس اعلان سے اذان مراد ہو تو یہ روایت مختصر ہو گی جس میں اس سے قبل کافی عبارت حذف ہے مگر یہ بعید توجیہ ہے، پہلی بات درست ہے۔ ➎ بعض روایات میں آگ کی تجویز کا بھی ذکر ہے مگر اسے بھی رد کر دیا گیا کیونکہ یہ مجوس کا مذہبی نشان ہے، نیز آگ ہر وقت نظر نہیں آتی اور نہ بارش وغیرہ میں اسے جلانا ممکن ہے۔ ➏ اہم امور باہمی مشورے سے طے کرنے چاہئیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور مشورہ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دے۔ ➐ اذان کھڑے ہو کر دینا مشروع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 627
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 837
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو جاتے اور نمازوں کے وقت کا اندازہ کر لیتے، اس کے لیے کوئی پکارتا نہیں تھا، ایک دن انہوں نے اس کے بارے میں گفتگو کی تو بعض نے کہا، عیسائیوں کے ناقوس جیسا ایک ناقوس بنا لو، اور بعض نے کہا، یہود کے قرن جیسا قرن بنا لو، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تم ایک آدمی ہے کیوں مقرر نہیں کر لیتے جو نماز کے لیے منادی کرے، رسول اللہ ﷺ نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:837]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) آذان: آگاہ کرنا، اطلاع دینا۔ يَتَحِينُون: وقت کا اندازہ لگاتے۔ (2) الصلاة: (1) اکثر اہل علم (اہل عربیت ہوں یا فقہاء) کے نزدیک اس کا معنی دعا ہے، کیونکہ نماز دعا پر مشتمل ہے۔ (2) کلمہ شہادت کے بعد دین میں نماز کا دوسرا درجہ ہے، گویا دین میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس لیے اس کو صلوٰۃ کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ گھوڑ دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے کو مصلی کہتے ہیں۔ (3) یہ صلوین: سے ماخوذ ہے، یہ وہ دو ہڈیاں ہیں(سرین میں) جو رکوع وسجود میں حرکت کرتی ہیں۔ (4) صلوۃ: کا معنی رحمت ہے، کیونکہ رحمت الٰہی کا سبب ہے، اس کا اصل معنی إِقْبَال عَلَي الشَّئْي، کسی چیز کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا، کیونکہ انسان کی پوری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مبذول ہوتی ہے۔ (3) ناقوس: عیسائی بڑی لکڑی پر چھوٹی لکڑی مار کر، نماز کا اعلان کرتے تھے۔ (4) قرن: نرسنگا، جو یہودی بجاتے تھے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں اذان کی صرف ابتدائی صورت بیان کی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے نماز کے لیے الصلاۃ جامعة کے الفاظ سے اطلاع دی جاتی تھی بعد میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں موجودہ اذان سکھائی گئی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اسی قسم کا خواب نظر آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز بلند تھی اس لیے ان کو مؤذن مقرر کر دیا گیا بعض حضرات نے ضعیف احادیث کے سہارا پر یہ دعوی کیا ہے کہ آپ کو آسمانوں پر لے جا کر اذان کے کلمات سنوائے گئے یا شب معراج میں آپﷺ کو اذان کی وحی کی گئی اور آپﷺ نے حضرت بلال کو اذان سکھا دی مگر سوال یہ ہے کہ معراج کا واقعہ تو مکہ مکرمہ میں پیش آ چکا تھا اگر اس وقت آپ نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان سکھا دی تھی تو پھر ہجرت کے بعد باہمی مشورہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ابتدائی شکل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے اعلان کرنے پر عمل کیوں ہوا؟
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 837
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:604
604. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب مسلمان مدینہ منورہ آئے تو نماز کے وقت کا اندازہ کر کے اس کے لیے جمع ہوا کرتے تھے کیونکہ اس وقت نماز کے لیے باقاعدہ اذان کا اہتمام نہ تھا۔ ایک دن انہوں نے اس کے متعلق باہمی مشورہ کیا تو کسی نے کہا: عیسائیوں کی طرح ایک ناقوس بنا لیا جائے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: یہودیوں کے بگل کی طرح ایک نر سنگھا رکھ لیا جائے، مگر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم ایک آدمی کو کیوں نہیں بھیجتے جو نماز کی اطلاع دے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے بلال! اٹھو اور نماز کی اطلاع دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:604]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ اذان کی مشروعیت حضرت عمر ؓ کے کہنے سے ہوئی، حالانکہ ایسا نہیں ہے، چنانچہ تفصیلی روایات سے پتاچلتا ہے کہ مدینہ طیبہ آنے کے بعد نماز کے لیے جمع ہونے کے متعلق مسلمانوں کو حسب ذیل تین مراحل سے گزرنا پڑا: ٭نماز کے وقت کا اندازہ لگا کر مسجد میں جمع ہو جاتے اور نماز پڑھ لیتے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا کہ کچھ لوگ پہلے آجاتے جبکہ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار متاثر ہوتا۔ اور کچھ لوگ وقت کے بعد آتے، اس سے نماز میں تاخیر ہوجاتی۔ ٭ اس کے بعد باہمی مشورے سے طے پایا کہ کسی آدمی کو متعین کردیا جائے جو بلند جگہ پر کھڑا ہو کر نماز کے وقت الصلاة جامعة کے الفاظ سے نما ز کے وقت کااعلان کردیا کرے۔ یہ تجویز حضرت عمر ؓ کی تھی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ اس پر عمل شروع ہوگیا۔ ٭آخر کار حضرت عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں ایک شخص نے اذان کی تعلیم دی تو انھوں نےاپنا خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے، چنانچہ آپ کے حکم پر جب حضرت بلال ؓ اذان دے رہے تھے تو حضرت عمر ؓ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکلے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے بھی اس طرح کا خواب دیکھا ہے۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 499) اس کے بعد اذان دینے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے خواب کی تفصیل اس طرح ہے کہ انھیں خواب میں ایک (سبز پوش) آدمی ملا جس نے ناقوس اٹھا رکھا تھا۔ میں نے اس سے یہ ناقوس خریدنا چاہا تو اس نے پوچھا: اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا: اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیں گے تو اس نے کہا: میں تجھے اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں؟ چنانچہ اس نے نماز کے لیے اذان اور اقامت کے کلمات تلقین کیے۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 499)(3) اذان کےلیے حضرت بلال ؓ کا انتخاب درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر کیا گیا: ٭روایت میں وضاحت ہے کہ خواب دیکھنے والے حضرت عبداللہ بن زید ؓ بیمار تھے اور بلال ؓ اس وقت موجود تھے۔ ٭حضرت بلال خوش الحان اور بلند آواز تھے۔ اذان دینے کے لیے ان دو اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ٭مکہ مکرمہ میں حضرت بلال ؓ نے کفار قریش کے ہاتھوں کلمۂ توحید کی خاطر سخت تکالیف برداشت کی تھیں، اس لیے غلبۂ اسلام کے وقت بھی کلمۂ توحید کا اعلان انھی کے حصے میں آیا۔ والله أعلم. (4) اس سے معلوم ہوا کہ اذان کی مشروعیت مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 604
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 604
ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب مسلمان (ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا... [صحيح بخاري ح: 604]
فوائد:
➊ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذان عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے سے شروع ہوئی، مگر تمام احادیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کا کام تین مرحلوں سے گزرا، کچھ مدت تک مسلمان نماز کے وقت کا اندازہ کر کے مسجد میں آ جاتے، مگر اس میں یہ نقصان ہوتا کہ پہلے آنے والوں کو انتظار میں دیر تک ٹھہرنا پڑتا، جس سے ان کے کام کاج کا نقصان ہوتا اور دیر سے آنے والوں کی وجہ سے نماز میں تاخیر ہو جاتی۔
دوسرا مرحلہ وہ ہے جو اس حدیث میں ہے کہ کسی نے نماز کے وقت ”ناقوس“ یعنی گھنٹہ بجانے کی تجویز دی۔ اس پر یہ اعتراض ہوا کہ یہ نصاریٰ کا طریقہ ہے۔ بگل کا ذکر ہوا تو اسے یہود کا طریقہ قرار دے کر رد کر دیا گیا۔ بعض احادیث میں آگ جلانے کی تجویز کا بھی ذکر ہے جو یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ مجوسں کا طریقہ ہے۔ بعض روایتوں میں نماز کے وقت ایک جھنڈا بلند کرنے کا بھی ذکر ہے۔ [ديكهيے داؤد: 498] یہ تجویز بھی پسند نہ کی گئی۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو نماز کا اعلان کرنے کا حکم دیا، مگر یہ اعلان اذان کی صورت میں نہیں تھا بلکہ طبقات ابن سعد (246/1، 247) میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مرسل روایت میں ہے کہ یہ اعلان ان الفاظ کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ «الصلاة جامعة .»
تیسرا مرحلہ عبد اللہ بن زید بن عبدِربہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، انھوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس (گھنٹہ) بنانے کا حکم دیا، تا کہ لوگوں کو نماز میں جمع کرنے کے لیے اسے بجایا جائے تو میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس سے ایک آدمی گزرا جو ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے بندے کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ساتھ نماز کی طرف بلائیں گے۔ اس نے کہا: کیا میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ اس نے کہا: تم یوں کہو: ِ «الله أَكْبَرُهُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ،
أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ الا الله،
أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ الا الله،
أشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،
أشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،
حَيَّ عَلَى الصلاة،
حي على الصلاة،
حي على الفلاح،
حي على الفلاح،
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ،
لَا إِلَهَ إِلَّا الله»
پهر وہ تھوڑی دیر مجھ سے پیچھے ہٹا، پھر اس نے کہا: پھر جب تم نماز کھڑی کرو تو یوں کہو: «اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ،
أَشْهَدُ أَن لَّا إلهَ إِلَّا اللهُ،
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ،
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ،
قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ،
قَدْ قامت الصلاة،
الله أكبر الله أكبر،
لا إله إلا الله»
جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور جو دیکھا تھا آپ کو بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقُّ إِنْ شَاءَ اللهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ، فَلْيُؤَذ ن بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْنَا مِنْكَ .» ”یقیناََ یہ سچا خواب ہے، ان شاؑ اللہ، اس لیے تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور تم نے جو دیکھا ہے اسے بتاتے جاؤ اور وہ ان الفاظ میں اذان کہے، کیونکہ وہ تم سے زیادہ خوش آواز اور بلند آواز ہے۔“
تو میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہو کر انھیں بتانے لگا اور وہ اس طرح اذان کہنے لگے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے سنا جب وہ اپنے گھر میں تھے تو اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور وہ یہ کہہ رہے تھے: یا رسول اللہ! اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح اس نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فَلِلَّهِ الحَمدُ»”تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔“[ابو دائود: 499، وقال الألباني: حسن صحيح] یہ حدیث صحیح ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے سے صرف نماز کے اعلان کا فیصلہ ہوا تھا، ابھی تک اذان شروع نہیں ہوئی تھی، کیونکہ اذان کی ابتدا اس کے بعد عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب سے ہوئی، جس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کے ساتھ کی اور اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ سے اذان سننے کے بعد ذکر کیا کہ انھوں نے بھی ایسا خواب دیکھا ہے۔
➋ بلال رضی اللہ عنہ کا انتخاب ان کے خوش آواز اور بلند آواز ہونے کی وجہ سے کیا گیا، «اندي» کے معنی میں دونوں باتیں شامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ موذن خوش آواز اور بلند آواز ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں آئے تو مکہ کے لڑکوں نے اذان کی نقل اتاری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ان میں ایک خوش آواز لڑکا سنا ہے، انھیں بلاؤ۔“ پھر آپ نے سب سے ایک ایک کر کے اذان سنی اور آخر میں ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو خود اذان سکھائی اور انھیں مؤذن مقرر فرمایا۔ ان کی اذان انیس (19) کلمات اور اقامت سترہ (17) کلمات پر مشتمل تھی۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 604