کبشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے، آپ نے ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا، پھر میں مشکیزہ کے منہ کے پاس گئی اور اس کو کاٹ لیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1892]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأشربة 21 (3423)، (تحفة الأشراف: 18049)، و مسند احمد (6/434) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنے پاس تبرکاً رکھنے کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4281) ، مختصر الشمائل (182)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3423
´کھڑے ہو کر پینے کا بیان۔` کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، ان کے پاس ایک پانی کی مشک لٹکی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے کھڑے اس کے منہ سے منہ لگا کر پانی پیا، تو انہوں نے مشک کے منہ کو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کا لمس ہوا تھا برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3423]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: نبی اکرمﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی اشیاء کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا درست ہے۔ کسی اور کے ساتھ یہ معاملہ درست نہیں صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو بکر وعمررضوان اللہ عنھم اجمعین جیسے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے آثار کو بھی تبرک کے لئے محفوظ نہیں فرمایا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:357
357-سیدہ کبشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے کے منہ سے کھڑے ہوکر پانی پیا۔ وہ خاتون بیان کرتی ہیں: میں نے مشکیزے کے منہ کو کاٹ لیا۔ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات خاتون کا نام کبشہ ذکر کیا ہے اور بعض اوقات کبیشہ ذکر کیا ہے۔ اور اکثر اوقات انہوں نے ان کا نام کبیشہ ذکر کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:357]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بسا اوقات کھڑے ہوکر پانی پی لینا درست ہے، اور جن احاد یث میں ممانعت ہے، وہ مکر وہ پرمحمول ہیں یعنی کھڑے ہو کر پانی پینا خلاف اولٰی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 357