جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈیوں پر بد دعا کرتے تو کہتے «اللهم أهلك الجراد اقتل كباره وأهلك صغاره وأفسد بيضه واقطع دابره وخذ بأفواههم عن معاشنا وأرزاقنا إنك سميع الدعاء»”اللہ! ٹڈیوں کو ہلاک کر دے، بڑوں کو مار دے، چھوٹوں کو تباہ کر دے، ان کے انڈوں کو خراب کر دے، ان کا جڑ سے خاتمہ کر دے، اور ہمارے معاش اور رزق تباہ کرنے سے ان کے منہ روک لے، بیشک تو دعا کو سننے والا ہے“، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر کو جڑ سے ختم کرنے کی بد دعا کیسے کر رہے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سمندر میں مچھلی کی چھینک ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے، ان سے غریب اور منکر روایتیں کثرت سے ہیں، ان کے باپ محمد بن ابراہیم ثقہ ہیں اور مدینہ کے رہنے والے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1823]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصید 9 (3221)، (تحفة الأشراف: 1451، 2585) (موضوع) (سند میں موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی ضعیف اور منکرالحدیث راوی ہے، ابن الجوزی نے موضوعات میں اسی کو متہم کیا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة: 112، لیکن ضعیف سنن الترمذی اور مشہور حسن کے سنن کے نسخے میں اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگا ہے)»
قال الشيخ زبير على زئي: (1823) إسناده ضعيف جدًا /جه 3221 موسي بن محمد : منكر الحديث (تق:7006)
اللهم أهلك الجراد اقتل كباره وأهلك صغاره وأفسد بيضه واقطع دابره وخذ بأفواههم عن معاشنا وأرزاقنا إنك سميع الدعاء قال فقال رجل يا رسول الله كيف تدعو على جند من أجناد الله بقطع دابره قال فقال رسول الله إنها نثرة حوت في البحر
اللهم أهلك كباره واقتل صغاره وأفسد بيضه واقطع دابره وخذ بأفواهها عن معايشنا وأرزاقنا إنك سميع الدعاء فقال رجل يا رسول الله كيف تدعو على جند من أجناد الله بقطع دابره قال إن الجراد نثرة الحوت في البحر
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1823
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اللہ! ٹڈیوں کو ہلاک کردے، بڑوں کو ماردے، چھوٹوں کو تباہ کردے، ان کے انڈوں کو خراب کردے، ان کا جڑسے خاتمہ کردے، اورہمارے معاش اوررزق تباہ کرنے سے ان کے منہ روک لے، بے شک تودعا کو سننے والا ہے۔
نوٹ: (سند میں موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی ضعیف اور منکرالحدیث راوی ہے، ابن الجوزی نے موضوعات میں اسی کو متہم کیا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ: 112، لیکن ضعیف سنن الترمذی اور مشہور حسن کے سنن کے نسخے میں اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1823