جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے خندق کے روز کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ اللہ کے رسول! میں عصر نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہو گیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں نے اسے (اب بھی) نہیں پڑھی ہے“، وہ کہتے ہیں: پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 180]
وضاحت: ۱؎: عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث میں مذکور واقعہ ابن مسعود والے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے، یہاں صرف عصر کی قضاء کا واقعہ ہے اور وہاں ظہر سے لے کر مغرب تک کی قضاء پھر عشاء کے وقت میں سب کی قضاء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے، غزوہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 180
اردو حاشہ: 1؎: عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں مذکور واقعہ ابن مسعود والے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے، یہاں صرف عصر کی قضا کا واقعہ ہے اور وہاں ظہر سے لے کر مغرب تک کی قضاء پھر عشاء کے وقت میں سب کی قضاء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے، غزوہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 180
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 596
´جس نے وقت نکل جانے کے بعد قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھی` «. . . عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ: " مَا صَلَّيْتُهَا، فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ " . . . .» ”. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ:: 596]
تشریح: جنگ خندق یا جنگ احزاب 5 ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گو یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہو گی۔ اور اسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «(قوله ماكدت) لفظه كاد من افعال المقاربة فاذا قلت كادزيد يقوم فهم منه انه قارب القيام ولم يقم كما تقرر فى النحو والحديث يدل على وجوب قضاءالصلوٰة المتروكة لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فى سبب ترك النبى صلى الله عليه وسلم واصحابه لهذه الصلوٰة فقيل تركوها نسيانا وقيل شغلوا فلم يتمكنوا وهو الاقرب كما قال الحافظ وفي سنن النسائي عن ابي سعيد ان ذلك قبل ان ينزل الله فى صلوٰة الخوف فرجالاً اوركباناً وسياتي الحديث وقد استدل بهذا الحديث على وجوب الترتيب بين الفوائت المقضية والموداة الخ۔»[نيل الاوطار، ج2ص: 31] یعنی لفظ «كاد» افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم «كاد زيد يقوم»(یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو) بولو گے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب تو ہوا مگر کھڑا نہ ہو سکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کر سکے۔
حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انہوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اور حدیث کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کر سکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرما رہے ہیں کہ «فتوضاء للصلوٰة وتوضاء نالها» کہ آپ نے بھی وضو کیا اور ہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ و جہاد کی مشغولیت یا اور کسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاء واجب ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض۔۔۔ کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اور بعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اور یہی درست معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اور نسائی میں حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نماز ادا کر لی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 596
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:596
596. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ خندق کے دن اس وقت آئے جب سورج غروب ہو چکا تھا۔ وہ کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نماز عصر بمشکل سورج غروب ہونے کے قریب ادا کر سکا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! عصر کی نماز میں بھی نہیں پڑھ سکا۔“ پھر ہم نے وادی بطحان کا رخ کیا، آپ نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے بھی وضو کیا، پھر آپ نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصر ادا کی، اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:596]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں نماز عصر کے فوت ہونے کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں نماز ظہر اور نماز عصر کے رہ جانے کا بیان ہے۔ (مسند أحمد: 3/25) اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ غزوہ خندق میں چار نمازیں رہ گئی تھیں۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 4031) شارحین نے ان مختلف احادیث میں تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں بیان کی ہیں: ٭صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی جائے اور باقی روایات کو مرجوح قرار دیا جائے۔ اس توجیہ کی تائید حضرت علی ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ کفارہ قریش نے ہمیں غزوۂ خندق کے موقع پر صلاۃ وسطی، یعنی نماز عصر پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1420(627) ٭غزوۂ خندق کے موقع پر متعدد واقعات پیش آئے، کسی میں ایک نماز اور کسی میں اس سے زیادہ نمازیں فوت ہونے کا ذکر ہے۔ اس موقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو سعید اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں حضرت عمر ؓ سے متعلق کوئی ذکر نہیں، نیز ان روایات میں ہے کہ فوت شدہ نمازیں نماز مغرب کا وقت گزر جانے کے بعد پڑھی گئیں جبکہ صحیح بخا ری کی حدیث کے مطابق نماز عصر غروب آفتاب کے بعد ادا کی گئی۔ (فتح الباري: 92/2)(2) اس حدیث میں فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں، تاہم اسماعیلی کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی۔ اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ نمازوں کے لیے اقامت کہی گئی، پھر آپ نے اس طرح پڑھائیں جس طرح ان کے اوقات میں پڑھاتے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث: 662) حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں بھی جماعت کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد: 375/1) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازیں اس لیے فوت ہوئیں کہ ابھی صلاۃ خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث: 662)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 596