الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
34. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشُورَةِ
34. باب: جنگ میں مشورہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1714
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟ "، فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے،
۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ۲؎،
۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1714]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (3084)، (تحفة الأشراف: 9628) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت: ۱؎: قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کر دیتا ہے، ابوبکر رضی الله عنہ کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی، عمر رضی الله عنہ کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر رضی الله عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہو جاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہو گیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» (الأنفال: ۶۷)۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہو گی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48) ، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)

قال الشيخ زبير على زئي: (1714) إسناده ضعيف / يأتي :3084
أبوعبيدة لم يسمع من أبيه كما تقدم (1061) والأعمش عنعن (تقدم: 169)

   جامع الترمذيما تقولون في هؤلاء الأسارى
   جامع الترمذيما تقولون في هؤلاء الأسارى

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1714 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1714  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرمﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا،
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا جائے،
عمر نے کہا:
یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں،
انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے،
بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سرقلم کرے،
جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سو کھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلادیا جائے،
نبی اکرمﷺ سب کی باتیں سن کر خاموش رہے،
اندر گئے پھر باہر آکر فرمایا:
اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتاہے،
ابوبکر کی مثال ابراہیم وعیسیٰ سے دی،
عمر کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ کی موسیٰ علیہ السلام سے،
پھر آپ نے ابوبکر کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا،
دوسرے دن جب عمر آئے تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کو روتا دیکھ کر عرض کیا،
اللہ کے رسولﷺ! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا،
یا روہانسی صورت بنا لیتا،
آپ ﷺ نے فرمایا:
بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں،
پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ (الأنفال: 67).
2؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے،
اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی،
اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔

نوٹ:
(ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1714   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3084  
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے، یا اس کی گردن اڑا دی جائے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، (مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3084]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپﷺ کی خاموشی میرے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ کہیں میری بات آپﷺ کو ناگوار نہ لگی ہو۔

2؎: (کسی نبی کے لیے یہ مناسب اورسزا وارنہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ پورے طورپر خوں ریزی نہ کر لے(ا لأنفال: 67)

نوٹ:
(سند میں ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3084