ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے مسافروں کی اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس میں کتا یا گھنٹی ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، عائشہ، ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1703]
وضاحت: ۱؎: ایسے کتے جو شکار یا نگرانی کے لیے ہوں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، گھوڑے کے گلے میں گھنٹی لٹکانے سے دشمن کو گھوڑے کے مالک کی بابت اطلاع ہو جاتی ہے، اس لیے اسے ناپسند کیا گیا، اور گھنٹی سے مراد ہر وہ چیز ہے جو جانور کی گردن میں لٹکا دی جائے تو حرکت کے ساتھ آواز ہوتی رہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (4 / 494) ، صحيح أبي داود (2303)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1703
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ایسے کتے جو شکار یانگرانی کے لیے ہوں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، گھوڑے کے گلے میں گھنٹی لٹکانے سے دشمن کو گھوڑے کے مالک کی بابت اطلاع ہوجاتی ہے، اس لیے اسے ناپسند کیا گیا، اور گھنٹی سے مراد ہر وہ چیز ہے جو جانور کی گردن میں لٹکا دی جائے تو حرکت کے ساتھ آواز ہوتی رہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1703
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5546
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے اس قافلہ والوں کے ساتھ نہیں رہتے جس میں کتا اور گھنٹی ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5546]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قافلہ والوں نے کتا اگر شوقیہ طور پر ساتھ رکھا ہو، قافلہ کی حفاظت اور چوروں سے آگاہی اور بیداری کے لیے نہ ہو اور اس طرح گھنٹی بلا ضرورت و مقصد محض زینت و زیبائش اور شوق کے لیے ہو، کوئی ضرورت اور مقصد نہ ہو تو یہ دونوں چیزیں جمہور فقہاء کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں، اگر کسی واقعی ضرورت کے لیے ہوں تو پھر بعض نے اس کی گنجائش رکھی ہے، کیونکہ آپ نے کھیتی اور مویشیوں کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی ہے۔