ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہ اس سند کے علاوہ سے بھی ابو سعید خدری سے ہے، ۳- اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابو الدرداء، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور ان کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1476]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الضحایا 18 (2827)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 15 (3199)، و مسند احمد (3/31، 53)، (تحفة الأشراف: 3986) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”مجالد“ ضعیف ہیں، دیکھئے: الارواء رقم 2539)»
وضاحت: ۱؎: بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں رہے اسے ”جنین“ کہا جاتا ہے۔
۲؎: یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہو گا۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1476
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں ر ہے اسے ”جنین“ کہاجاتا ہے۔
2؎: یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہوگا۔
نوٹ: (متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”مجالد“ ضعیف ہیں، دیکھئے: الارواء رقم: 2539)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1476
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3199
´ماں کو ذبح کرنا اس کے پیٹ کے بچے کو ذبح کرنا ہے۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین (ماں کے پیٹ کے بچے) کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اگر چاہو تو کھاؤ، کیونکہ اس کی ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے“۱؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے کوسج اسحاق بن منصور کو لوگوں کے قول «الذكاة لا يقضى بها مذمة» کے سلسلے میں کہتے سنا: «مذمۃ» ذال کے کسرے سے ہو تو «ذمام» سے مشتق ہے اور ذال کے فتحہ کے ساتھ ہو تو «ذمّ» سے مشتق ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3199]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ۔ پیدائش سے پہلے بچے کی زندگی اور موت ماں کی زندگی اور موت کے تابع ہوتی ہےاس لیے ماں کو ذبح کرنا گویا بچے کو ذبح کرنا ہے۔
(2) بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس بچے کو بھی اس کی ماں کی طرح ذبح کیا جائے لیکن اس قول پر دل مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اگر بچہ ذندہ برآمد ہوتو اس کے بارے میں شک نہیں ہوسکتا کہ اسے ذبح کرنا ہی چاہیے۔ شک تو اس صورت میں ہوسکتا ہےکہ ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی جان دے دے۔ اسی کے بارے میں سوال کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھانے کی اجازت دے دی۔ والله اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3199